کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 172
مگر یہ درست نہیں۔ امام ابن عبدالہادی رقمطراز ہیں:
’’اس میں (حدیث کی تصحیح کی) دلیل نہیں، کیونکہ سفیان نے اسے مسند بیان نہیں کیا۔ انھوں نے بس کہا: ’’ حدثنا زبید عن محمد بن عبدالرحمن‘‘ اور بس۔ اور اسے مرفوع بیان نہیں کیا۔‘‘(تنقیح التحقیق: ۲/ ۲۶۷۔ ۲۶۸)
دوسری شق کے راوی ابو الحسین محمد بن عبداللہ بن مخلد کے بارے میں کوئی جرح یا تعدیل منقول نہیں، لہٰذا ’’سمعتہ‘‘ کی تصریح غیر معتبر ہے۔
تیسری شق میں مذکور الفاظ ’’نحوہ أو شبھہ‘‘ کے معنی ہیں کہ زبید، حکیم بن جبیر کے ہم معنی الفاظ بیان کرتے ہیں یہ مطلب نہیں کہ زبید، حکیم کی طرح روایت مسند بیان کرتے ہیں۔ درآں حالیکہ یحییٰ بن آدم کے اکثر تلامذہ کی روایت کو ترجیح دی جائے گی اور وہ اس روایت کو مجمل بیان کرتے ہیں:
’’عن ابن آدم عن سفیان: حدثناہ زبید عن محمد بن عبدالرحمن بن یزید‘‘
حدیث کی تضعیف کرنے والے اہل علم:
1. امام شعبہ: (الکامل لابن عدي: ۲/ ۶۳۶، تقدمۃ الجرح والتعدیل، ص: ۱۴۰)
2. امام ابن معین: ’’حدیث منکر‘‘ (التاریخ لابن معین: ۳/ ۳۴۶۔ روایۃ الدوري)
3. امام یعقوب فسوی: ’’یہ قصہ مستبعد ہے، اگر زبید کی حدیث حکیم کی مانند ہوتی تو اہلِ علم پر مخفی نہ رہتی۔‘‘ (المعرفۃ والتاریخ: ۳/ ۲۳۵)
المعرفۃ میں امام فسوی رحمہ اللہ کے قول کا بعض حصہ ساقط ہے۔ مکمل عبارت ’’بیھقي‘‘ (۷/ ۲۴) میں موجود ہے۔ نیز اس حوالے سے ’’الجوھر النقي‘‘ اور ’’تنقیح التحقیق لابن عبدالھادي‘‘ (۲/ ۲۷۱) ملاحظہ فرمائیں۔