کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 171
ثانیاً: معانی الآثار ہی میں دوسرے مقام پر بعینہٖ سند موجود ہے، مگر اس میں ’’مثلہ‘‘ کا اضافہ نہیں۔ (معاني الآثار: ۴/ ۳۷۲، درسی نسخہ: ۲/ ۴۵۵) بلکہ امام طحاوی کی دوسری کتاب میں یہی سند ’’مثلہ‘‘ کے اضافے کے بغیر ہے۔ (شرح مشکل الآثار: ۱/ ۴۲۹، حدیث: ۴۸۹) حافظ دارقطنی رحمہ اللہ نے ابو ہشام کی سند بیان کی ہے، اس میں بھی یہ زیادت مذکور نہیں۔ (العلل: ۵/ ۲۱۷) زبید کی متابعت کی حقیقت: 1. علامہ طوسی نے ’’الأحکام‘‘ (۳/ ۲۴۶) اور ابن عدی نے ’’الکامل‘‘ (۲/ ۶۳۵) میں سفیان ثوری کا قول یوں ذکر کیا ہے: ’’سمعت زبیداً یحدث بھذا عن محمد بن عبدالرحمن بن یزید‘‘ ’’میں نے زبید سے سنا وہ اس حدیث کو محمد بن عبدالرحمن بن یزید سے روایت کرتے تھے۔‘‘ 2. ’’الکامل لابن عدی‘‘ (۲/ ۶۳۴) میں ہے: ’’قال الثوري: قد سمعتہ من زبید‘‘ ’’ثوری نے کہا: یقینا یہ روایت میں نے زبید سے سنی ہے۔‘‘ 3. حافظ دارقطنی ذکر کرتے ہیں: ’’قال سفیان: وقد سمعت زبیداً یحدث عن محمد بن عبدالرحمن بن یزید نحوہ أو شبھہ‘‘ ’’سفیان نے کہا: یقینا میں نے زبید سے سنا وہ محمد بن عبدالرحمن بن یزید سے اس جیسی روایت کرتے ہیں۔‘‘ (العلل: ۵/ ۲۱۷) پہلی شق سے معلوم ہوتا ہے کہ زبید نے حکیم بن جبیر کی متابعتِ تامہ کی ہے،