کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 170
حافظ ابن حزم:
’’حکیم بن جبیر ساقط ہے۔ زبید اسے مسند (موصول) بیان نہیں کرتے۔ اور مرسل حجت نہیں۔‘‘ (المحلی: ۶/ ۱۵۴)
بایں وجہ زبید کی سند کا مرسل ہونا راجح ہے۔ اگر یہ سند متصل ہوتی تو اسی سند سے حدیث صحیح قرار پاتی، مگر بڑے بڑے ائمۂ نقد اس کی دونوں سندوں کے باوجود اسے صحیح نہیں گردانتے۔
اس کے مرسل ہونے کا دوسرا قرینہ یہ ہے کہ سفیان ثوری نے اس سند پر بنیاد نہیں رکھی۔ حکیم بن جبیر کی سند کو اساس قرار دیا ہے، اگر زبید والی سند متصل ہوتی تو سفیان اسی کو اصل قرار دیتے۔
یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی مناسب ہے۔
معانی الآثار میں طباعتی غلطی:
معانی الآثار میں ہے:
’’أبو ھشام الرفاعي، ثنا یحییٰ بن آدم: ثنا سفیان: حدثناہ زبید، عن محمد بن عبدالرحمن بن یزید مثلہ‘‘(شرح معاني الآثار: ۲/ ۲۰، درسی نسخہ: ۱/ ۳۵۸)
علامہ زبیدی نے بھی یہ سند بعینہٖ نقل کی ہے، معمولی فرق یہ ہے کہ وہاں ’’حدثنا زبید‘‘ ہے۔ (إتحاف السادۃ: ۴/ ۱۶۰)
اس جملہ میں ’’مثلہ‘‘ طباعتی یا ناسخ کی غلطی معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اگر اس کلمے کو صحیح قرار دیا جائے تو اس کے معنی ہوں گے کہ زبید الایامی والی سند بھی متصل اور مرفوع ہے۔