کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 160
6۔ امام نسائی: ’’ضعیف‘‘ (الضعفاء والمتروکین للنسائي، ص: ۲۰۶) 7۔ امام یعقوب بن شیبہ: لیس بالساقط، وإلی الضعف ما ھو‘‘(تاریخ دمشق: ۵۰/ ۲۵) 8۔ امام ابو جعفر الطبری: ’’ممن لا یحتج بنقلہ‘‘ (تھذیب: ۸/ ۴۱۴) 9۔ امام ابن عدی: ’’لم أر بحدیثہ بأسا، وأرجوا أن لا بأس بہ‘‘(الکامل: ۶/ ۲۰۸۹) 10۔ امام محمد بن عبداللہ الموصلی:’’ثقۃ‘‘ (تاریخ دمشق: ۵۰/ ۲۴) 11۔ امام ابن حبان: ذکرہ في الثقات (۷/ ۳۵۴) حافظ ابن حبان نے ’’ المجروحین‘‘ (۲/ ۲۲۲) میں بھی کثیر کو ذکر کیا اور فرمایا: ’’کان کثیر الخطأ علی قلۃ روایتہ، لا یعجبني الاحتجاج بہ إذا انفرد‘‘ ’’وہ قلیل الروایۃ ہونے کے باوجود بہ کثرت خطا کرتا ہے، جب وہ کسی روایت کو بیان کرنے میں منفرد ہو تو اس سے احتجاج کرنا مجھے پسندیدہ نہیں۔‘‘ واللہ تعالیٰ اعلم 12۔ حافظ ابن حجر: ’’صدوق یخطیٔ‘‘ (التقریب: ۶۳۰۲) 13۔ ذہبی عصر معلمی: ’’کثیر غیر قوي‘‘ (الأنوار الکاشفۃ، ص: ۳۵) گویا اس سند کے دونوں راوی مختلف فیہ ہیں۔ امام احمد، حافظ بزار وغیرہما کی تنقید کے بعد اس حدیث کو حسن لذاتہ قرار دینا محلِ نظر ہے۔ بلاشبہ امام احمد نے اس حدیث کو حسن لغیرہ قرار نہیں دیا، مگر امام احمد کے مذکورۃ الصدرا قوال سے یہ باور کرانا کہ ان کے نزدیک حسن لغیرہ کی کوئی حقیقت نہیں، محلِ نظر ہے، کیونکہ اصول کے استنباط کی کسوٹی اگر یہی رہی تو نتیجہ برآمد ہوگا