کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 159
5۔ حافظ ابن عدی: ’’أرجوا أنہ لا بأس بہ‘‘ (الکامل: ۳/ ۱۰۳۵) 6۔ حافظ ذہبی: ’’صویلح، ما ضعف‘‘ (تنقیح التحقیق للذھبي: ۱/ ۴۴) پھر اسے ’’المغنی‘‘ (۱/ ۲۲۷، ترجمہ: ۲۰۸۵) ’’دیوان الضعفاء‘‘ (ص: ۹۹) اور ’’میزان الاعتدال‘‘ (۲/ ۳۸) میں ذکر کیا ہے۔ 7۔ حافظ ابن حجر: ’’مقبول‘‘ (التقریب: ۲۰۵۹) نیز فرمایا: ’’مختلف فیہ‘‘ (نتائج الأفکار: ۱/ ۱۷۱) کثیر بن زید: 1۔ امام ابن معین: 1. ’’لیس بذاک القوی‘‘ (الجرح والتعدیل: ۷/ ۱۵۱، التاریخ لابن أبي خیثمۃ، ص: ۴۳۹)2. ’’لیس بہ بأس‘‘ (الکامل: ۶/ ۲۰۸۷)3. ’’ضعیف‘‘ (معرفۃ الرجال: ۱۰۴، فقرۃ: ۱۶۴ ۔روایۃ ابن محرز) 4.’’ثقۃ‘‘ (الکامل: ۶/ ۲۰۸۷)5. پہلے ابن معین ’’لیس بشيئٍ‘‘ قرار دیتے تھے۔ (التاریخ لابن أبي خیثمۃ، ص: ۴۳۹)6. کثیر بن عبداللّٰه ’’ضعیف الحدیث، وکثیر بن زید أقوی منہ وأصلح حدیثاً‘‘ (تاریخ دمشق: ۵۰/ ۲۴) 7.’’صالح‘‘ (تاریخ دمشق: ۵۰/ ۲۴) 2۔ امام احمد: ’’ما أری بہ بأساً‘‘(العلل و معرفۃ الرجال: ۲/ ۳۱۷، فقرۃ: ۲۴۰۶) 3۔ امام ابن مدینی: ’’صالح، ولیس بالقوي‘‘(سؤالات ابن أبي شیبۃ لابن المدیني، ص: ۹۵) 4۔ امام ابو حاتم الرازی: ’’صالح (الحدیث)، لیس بالقوي، یکتب حدیثہ‘‘ (الجرح: ۱/ ۱۵۱) 5۔ امام ابو زرعہ الرازی: ’’صدوق فیہ لین‘‘ (الجرح: ۱/ ۱۵۱)