کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 158
’’یہ دونوں حدیثیں غیر ثابت شدہ ہیں۔‘‘ (العلل المتناھیۃ: ۱/ ۳۳۸)
پہلی حدیث سے ان کی مراد حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جبکہ دوسری حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔
3۔ محققین مسند احمد:
’’اس کی سند ربیح بن عبدالرحمن اور کثیر بن زید کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے، کثیر اسلمی ہے، متابعات میں اس کی حدیث حسن ہے۔ انفرادی طور پر ضعیف ہے۔ اور یہ بھی اس کی منفرد حدیث ہے۔‘‘(تحقیق مسند أحمد: ۱۷/ ۴۶۴)
4۔ دکتور احمد بن محمد الخلیل نے بھی اس روایت بلکہ اس بابت سبھی روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (مستدرک التعلیل: ۵۸۔ ۶۱)
5۔ استاذ اثری حفظہ اللہ : ’’اس کی سند میں کمزوری ہے۔‘‘ (تحقیق مسند أبي یعلی: ۲/ ۱۹)
6۔ حافظ بوصیری نے کہا ہے: ’’إسنادہ حسن‘‘ (مصباح الزجاجۃ: ۱/ ۱۱۰)
اس سند کے مرکزی راوی ربیح بن عبدالرحمن اور ان کے شاگرد کثیر بن زید ہیں، جن کے بارے میں محدثین کی آرا ملاحظہ ہوں:
ربیح بن عبدالرحمن:
1۔ امام احمد: ’’لیس بمعروف‘‘ (الکامل لابن عدي: ۳/ ۱۰۳۴،۶/ ۲۰۸۷، بحر الدم: ۱۴۷)
2۔ امام بخاری: ’’منکر الحدیث‘‘ (علل الترمذي الکبیر: ۱/ ۷)
3۔ امام ابو زرعہ الرازی: ’’شیخ‘‘ (الجرح والتعدیل: ۳/ ۵۱۹)
4۔ امام ابن حبان: ذکرہ في الثقات (۶/ ۳۰۹)