کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 155
في أحادیث التعلیق: ۱/ ۴۶) اور حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ (البدر المنیر: ۲/ ۷۶) نے ذکر کیا ہے۔ المغني لابن قدامۃ (۱/ ۸۵ ۔مع الشرح الکبیر۔ روایۃ الحسن بن محمد بن الحارث السجستاني عن الإمام أحمد) و شرح العمدۃ لابن تیمیۃ (ص: ۷۰) الإعلام بسنتہ علیہ السلام للمغلطائی (۱/ ۳۳۸، حدیث: ۱۳۰ روایۃ أبي عمر خطاب بن بشر الوراق عن الإمام أحمد) العلل المتناھیۃ لابن الجوزي (۱/ ۳۳۸)، التلخیص الحبیر (۱/ ۷۳)، نتائج الأفکار (۱/ ۱۶۶۔ روایۃ المروذي عن الإمام أحمد) 10۔ الکامل لابن عدي (۳/ ۱۰۳۴، روایۃ أحمد بن حفص عن الإمام أحمد)، بیھقي (۱/ ۴۳)، تاریخ دمشق (۵۰/ ۲۱) احمد بن حفص ذومناکیر واہٍ ہے۔ لسان (۱/ ۴۴۵) حافظ ابن عدی رحمہ اللہ نے اس پر تنقید کے باوجود امام احمد رحمہ اللہ کے بعض اقوال اس سے نقل کیے ہیں، نیز اس کا یہ قول امام احمد کے دیگر تلامذہ کے اقوال کے موافق ہے۔ 2. امام بزار: ’’کل ما روي في ذلک فلیس بقوي الإسناد، وإن تأیدت ھذہ الأسانید‘‘(الإمام لابن دقیق العید: ۱/ ۴۴۹، البدر المنیر: ۲/ ۸۶، التلخیص الحبیر: ۱/ ۷۳) ’’اس بابت جو مروی ہے، اس کی اسناد قوی نہیں، اگرچہ یہ اسانید (شواہد) ان کے مؤیدات ہوں۔‘‘