کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 149
مجموعی سندوں سے حدیث کا اثبات ہوتا ہے۔ اس کا نام حسن رکھا جاتا ہے۔‘‘ (البدر المنیر: ۲/ ۹۰) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: ’’اس کی مجموعی سندوں سے حسن (لغیرہ) حدیث کا اثبات ہوتا ہے۔‘‘(نتائج الأفکار: ۱/ ۱۷۴) 5. امام منذری: ’’بلاشبہ (وضو سے قبل تسمیہ کے بارے میں) جو احادیث وارد ہیں، اگرچہ وہ تنقید سے خالی نہیں، مگر وہ اپنی متعدد اسانید کی بنا پر باہم تقویت حاصل کر کے کچھ نہ کچھ حیثیت کی حامل بن جاتی ہیں۔‘‘(الترغیب والترھیب: ۱/ ۱۶۴) 6. شیخ الاسلام ابن تیمیہ: ’’یہ (ضعف) اس کے حسن ہونے کی نفی نہیں کرتا اور حسن (لغیرہ) حجت ہے۔۔۔ اس کی متعدد اسانید ہیں، بہ کثرت اس کے مراجع ہیں، جس کی بنا پر بعض بعض کی تائید کرتا ہے۔ غالب رائے ہے کہ اس حدیث کی اصل ہے۔۔۔ مرسل حدیث پر جمہور اہلِ علم عمل کریں، یا ایک مرسل کے راوی دوسری مرسل سے مختلف ہوں، یا اس جیسے فتاویٰ صحابہ ہوں، یا قرآن کا ظاہر اس کی موافقت کرے تو وہ حجت ہے اور یہ حدیث ’’التسمیۃ قبل الوضوء‘‘ کئی اسباب کی بنا پر تقویت حاصل کرتی ہے۔۔۔ اس کی کئی مختلف سندیں ہیں، بعض مسند ہیں اور بعض مرسل۔‘‘ (شرح العمدۃ: ۱/ ۱۷۰۔ ۱۷۲، بتصرف)