کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 143
10 علامہ کرمانی۔ (شرح صحیح البخاري: ۶/ ۱۵۳، ۱۷/ ۱۱۶)
11. مفسر آلوسی۔ (روح المعاني: ۹/ ۱۷۷)
12. قاضی مجیر الدین بن محمد العلیمی الحنبلی ۹۲۷ھ۔(فتح الرحمن في تفسیر القرآن: ۴/ ۴۴۰)
13. علامہ شوکانی۔ (فتح القدیر: ۳/ ۲۴۷۔ ۲۴۸)
14. نواب صدیق الحسن خان۔(فتح البیان: ۶/ ۲۴۵، بحوالہ الاستیعاب للشیخ سلیم الھلالي: ۲/ ۵۱۷)
15. شیخ محمد عبدہ مصری۔ جنھوں نے اس بابت ایک رسالہ تصنیف کیا اور اس کا ضعیف ہونا ثابت کیا ہے۔ جیسا کہ محدث البانی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے۔(نصب المجانیق، ص: ۴۸)
16. محدث عبید اللہ رحمانی۔ (مرعاۃ المفاتیح: ۳/ ۴۳۲)
17. شیخ محدث البانی۔ (نصب المجانیق للألباني)
18. شیخ سلیم عید الہلالی۔ (الاستیعاب في بیان الأسباب: ۲/ ۵۱۴)
19 دکتور مہدی رزق اللہ احمد۔ (السیرۃ النبویۃ: ۱/ ۲۲۶۔ ۲۳۴)
20. شیخ علی بن حسن حلبی۔ (دلائل التحقیق لإبطال قصۃ الغرانیق)
21. دکتور عبدالمعطی قلعجی۔(تحقیق و حاشیہ علی دلائل النبوۃ للبیھقي (۲/ ۲۸۷۔ ۲۹۱)
22. دکتور خالد بن منصور الدریس کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔(الحدیث الحسن لذاتہ ولغیرہ: ۵/ ۲۲۳۷۔ ۲۲۴۳)
23. دکتور ماہریسین فحل۔ (الجامع في العلل والفوائد: ۱/ ۳۱۲)
ان کے علاوہ متعدد محققین نے اس روایت کو ناقابلِ اعتبار قرار دیا ہے۔
ان اقوال سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ حسن لغیرہ کے قابل بھی نہیں، اگرچہ اس