کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 142
ہو یا جماعت سے سنی ہے تو وہ سبھی ضعیف تھے۔ غالباً اسی خدشہ کے پیشِ نظر امام شافعی رحمہ اللہ کبار تابعین کی مراسیل کی مشروط تقویت کے قائل تھے۔ (کتاب الرسالۃ للشافعي، ص: ۴۶۳، ۴۶۵، ۴۶۷، فقرۃ: ۱۲۷۱، ۱۲۷۲، ۱۲۷۷، ۱۲۸۴) مضعفینِ حدیث: ثانیاً: متعدد اہلِ علم نے اس واقعہ کو عقل و نقل کے برعکس قرار دیتے ہوئے ضعیف، موضوع اور باطل قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو: 1. امام ابن خزیمہ: ’’زنادقہ (مجوسیوں اور پارسیوں) کا وضع کردہ ہے۔‘‘ امام صاحب نے اس قصہ کے ابطال میں ایک کتاب بھی تالیف کی ہے۔(مفاتیح الغیب للرازي: ۲۳/ ۵۰) 2. امام بیہقی: یہ روایتی اعتبار سے غیر ثابت ہے۔ (تفسیر الرازي: ۲۳/ ۵۰) 3. حافظ بزار نے ضعیف قرار دیا ہے۔(البحر الزخار: ۱۱/ ۲۹۶۔ ۲۹۷، حدیث: ۵۰۹۶) 4. علامہ ابوبکر ابن العربی نے دس اسباب کی بنا پر اسے باطل قرار دیا ہے۔(أحکام القرآن: ۲/ ۷۴۔ ۷۵) 5. علامہ رازی نے ائمۂ فن سے اس کا باطل اور من گھڑت ہونا نقل کیا ہے۔(تفسیر الرازي: ۲۳/ ۵۰) 6. علامہ نحاس۔ (تفسیر القرطبي: ۱۲/ ۸۱) 7. قاضی عیاض۔ (الشفا: ۲/ ۱۰۷) 8. علامہ قرطبی۔ (تفسیر ہ: ۱۲/ ۸۲) 9. علامہ عینی۔ (عمدۃ القاري: ۱۹/ ۶۶)