کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 141
مرویات ہیں، جنھیں ثقہ راویان بیان کرتے ہیں، مگر ان کی خطا کی وجہ سے محدثین ان پر سخت تنقید کرتے ہیں، انھیں باطل اور لا اصل لہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں، کتب العلل میں ایسی امثلہ کی دستیابی ممکن ہے۔ بایں وجہ محض اسانید کی بنا پر روایت کو حسن قرار دینا اور متن کی علل سے اعراض کرنا محلِ نظر ہے۔ قصۃ الغرانیق والی حدیث کو اگرچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے حسن قرار دینے کی تگ و پُو کی ہے۔ (فتح الباري: ۸/ ۴۳۹) مگر وہ سند کے اعتبار سے ضعیف اور متن کے لحاظ سے باطل ہے۔ سند کے اعتبار سے ضعیف اس طرح کہ مرسل بیان کرنے والوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین جو واسطہ یا واسطے ہیں، وہ مشکوک ہیں، جو مجہول بھی ہوسکتے ہیں اور ضعیف بھی، کیونکہ ایسی منکر روایت عموماً انھیں اوصاف سے متصف رواۃ سے معرضِ وجود میں آتی ہے۔ اگر وہ پسِ پردہ ایک راوی کے گرد گھومتی ہے تو وہ مجہول ہے، اگر اسے جماعت بیان کرتی ہے تو وہ ضعفا ہیں، ان مرسل بیان کرنے والوں کا اسے بایں انداز بیان کرنا شبہ سے خالی نہیں۔ اس لیے وہ روایت قابلِ تقویت نہیں۔ اس حدیث کو مرسل بیان کرنے والے امام ابوبکر بن عبدالرحمن مدینے کے باشندے ہیں، جبکہ باقی تین راوی بغدادی ہیں، ابن جبیر کوفی ہیں، قتادۃ اور ابو العالیہ رفیع دونوں بصری ہیں، لہٰذا ان کی باہمی لقا کا قوی امکان ہے، کیونکہ اس زمانے میں مدینہ، کوفہ و بصرہ دبستانِ علم تھے، بایں وجہ تشنگانِ علم کی آمد و رفت جاری رہتی تھی۔ مراسیل بیان کرنے والوں کا طبقہ بھی قریب قریب ہے۔ ابو العالیہ ۹۰ھ، ابوبکر مدنی ۹۴ھ، سعید، ۹۵ھ، قتادہ ۱۰۳ھ سے ۱۱۰ھ تک کے درمیان فوت ہوئے۔ اس لیے یہ تصور بعید نہیں کہ انھوں نے یہ حدیث کسی مجہول راوی سے سنی