کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 139
ایک جماعت نے اس زیادت کو معلول قرار دیا ہے۔ مگر مجھے کسی متقدم محدث سے یہ صراحت نہیں ملی: ’’یہ زیادت شاذ ہے‘‘ وغیرہ۔ بلکہ علل الحدیث کے فلسفی امام بخاری رحمہ اللہ کا اسلوبِ تعلیل ہے: ’’ہشام، سعید، ہمام، ابو عوانہ، ابان بن یزید العطار، عبیدہ امام قتادہ سے بیان کرتے ہیں اور وہ سبھی ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ ذکر نہیں کرتے۔‘‘ (جزء القراء ۃ للبخاري: ۲۸۴) امام بخاری رحمہ اللہ کے اسلوبِ نگارش سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سلیمان تیمی کا شذوذ بیان کر رہے ہیں۔ اب اگر کوئی تقاضا کرے کہ ان کا بالصراحت شاذ قرار دینا دکھلائیں تو یہ نہایت نا معقول ہے۔ اہلِ اصطلاح نے ایسے ہی اقوال کے تناظر میں یہ اصول وضع کیا کہ اگر زیادت بیان کرنے والا ثقہ ہو تو وہ شاذ ہوگا۔ اگر وہ ضعیف ہو تو اس کا اضافہ منکر ہوگا۔ کما ھو بین کبار اہلِ علم کے اقوال سامنے رکھ کر حافظ ترمذی، بیہقی، ابن الصلاح، ابن حجر رحمہم اللہ نے حسن لغیرہ کی حجیت کا نظریہ طلبۂ علم کے سامنے پیش کیا، اگر یہ موقف درست نہیں تو اپنے اپنے دور کے کبار ائمہ خطا پر رہے؟ بلکہ امت غلطی پر رہی؟ بایں وجہ راجح موقف یہ ہے کہ ضعیف+ ضعیف اسی وقت حجت ہے، جب قرائن اس کی درستی پر دلالت کریں، متقدمین اور متأخرین کا یہی انداز ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ متأخرین نے اس بابت وہ احتیاط نہیں کی جو متقدمین کا طرۂ امتیاز تھا، اس لیے ضعیف + ضعیف کو مطلق طور پر حجت سمجھنا یا کلی طور پر رد کرنا افراط و تفریط سے خالی نہیں، بہترین راستہ معتدلین اور راسخین فی العلم کا ہے۔