کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 138
سمجھا جا سکتا ہے کہ متقدمین کے ہاں حدیث کی دو قسمیں تھیں: صحیح اور ضعیف۔ حسن روایت صحیح کے تحت مندرج تھی، اس کو مستقل قسم متعارف کروانے والے امام ترمذی ہیں۔
اگر یہ قاعدہ قرار پائے کہ حسن لغیرہ تب حجت ہے، جب وہ سبھی متقدمین سے ثابت ہو یا اکثر سے اس کا ثبوت ضروری ہے تو اس تناظر میں دیگر اصطلاحاتِ حدیثیہ جنھیں متأخرین نے تفصیل سے بیان کیا ہے، کی تردید کرنا ہوگی۔ بظاہر یہ قرینِ صواب نہیں، کیونکہ متقدمین اصطلاحات کو مجمل طور پر بیان کرتے تھے یا تلمیح پر اکتفا کرتے تھے۔
متقدمین کا مصطلح ذکر کرنے کا اسلوب:
متقدمین اہل علم کی علل الاحادیث پر مشتمل کتب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی حدیث کو صراحتاً بہت کم معلول قرار دیتے ہیں، بیشتر وہ اشاروں سے کام لیتے ہیں یا وہ جو علتیں ذکر کرتے ہیں وہ بھی متاخرین کے انداز کے برعکس اپنے مدلول پر بخوبی دلالت نہیں کرتیں۔
اگر کوئی شخص شاذ روایات جمع کرے، پھر ان کے بارے میں متقدمین کے اقوال تلاش کرے تو وہ یہ نتیجہ نکالے گا کہ وہ ایسی مرویات پر بہت کم صراحتاً شاذ کا اطلاق کرتے ہیں، بلکہ اگر ان احکام کو شمار کیا جائے تو شاید وہ انگلیوں کے پوروں کی تعداد سے متجاوز نہ ہوں، وہ ایسی احادیث کو خطا، وہم، غلط سے تعبیر کرتے ہیں، یا اسانید کا مجموعہ ذکر کرتے ہیں اور نہایت مہارت سے اس راوی کے شذوذ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس سے غلطی صادر ہوتی ہے۔
سلیمان بن طرخان تیمی ثقہ راوی ہیں، وہ قتادۃ بن دعامۃ سے ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کا اضافہ بیان کرنے میں ان کے شاگردوں میں تنہا ہیں۔ متقدمین کی