کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 137
دور میں صحابۂ کرام خصوصی احتیاط برتتے تھے۔ (صحیح مسلم: ۲۱، مقدمہ) زمانۂ تابعین میں بھی انھی اصولوں کی پاس داری کی گئی بلکہ بقدرِ ضرورت اصطلاحات کے دائرہ میں وسعت پیدا ہوتی گئی، اس لیے یہ تقاضا کرنا کہ ان ادوار میں حسن لغیرہ کی صراحت دکھلائیں، نہایت غیر معقول ہے۔ تیسری اور چوتھی صدی ہجری مصطلح کا انتہائی زریں دور ہے، تیسری صدی میں امام حمیدی رحمہ اللہ ۲۱۹ھ نے چند مصطلح پر مشتمل رسالہ لکھا، امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی مقدمۂ صحیح مسلم میں چند اصطلاحات کا ذکر کیا۔ امام ابو داود رحمہ اللہ نے سنن ابی داود کے حوالے سے اہلِ مکہ کی طرف ایک رسالہ لکھ کے ارسال کیا، امام ترمذی رحمہ اللہ نے العلل الصغیر میں متنوع اصطلاحات ذکر کیں، گویا یہ مصطلح کی شروعات ہیں۔ ازاں بعد اس فن میں ضخیم کتب معرضِ وجود میں آنے لگیں۔ اعتراض کی دوسری شق (کہ انھوں نے صراحت نہیں کی) کا جواب یہ ہے کہ تیسری صدی ہجری کے متوفیان میں امام شافعی ۲۰۴ھ، امام جوزجانی ۲۵۹ھ، امام احمد، امام بخاری وغیرہم ہیں، ان میں سے بعض نے تو حسن لغیرہ کی حجیت کی صراحت کی اور چند نے احادیث کو حسن لغیرہ قرار دے کر انھیں قابلِ احتجاج ٹھہرایا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ متقدمین ائمۂ فن اور اہلِ اصطلاح نہیں؟ یہ بھی نہایت سطحی سا اعتراض ہے کہ فلاں فلاں متقدمین نے حسن لغیرہ کی صراحت نہیں کی، حالانکہ انھیں ان اصطلاحات کی چنداں ضرورت نہ تھی، یہاں یہ بھی سوال جنم لیتا ہے کہ سبھی اصطلاحاتِ حدیثیہ ان محدثین سے ثابت ہیں، جن سے حسن لغیرہ کی صراحت کا تقاضا کیا جاتا ہے؟ اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر ہم عرض کیے دیتے ہیں کہ سبھی اصطلاحات ان متقدمین سے ثابت ہیں اور نہ وہ انھیں ایسے جچے تلے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں، جیسے متأخرین کا طرزِ عمل ہے۔ اسے یوں