کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 136
الحدیثیۃ‘‘ میں ’’تقویۃ الحدیث الضعیف بین الفقھاء والمحدثین‘‘ کے نام سے مطبوع ہے۔ اس لیے عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ قارئین کو الحسن بمجموع الطرق۔۔۔ کے مطالعے کے ساتھ ساتھ ان کتب کے مطالعے کی بھی دعوت دینی چاہیے۔ اشکال نمبر5.: خیر القرون میں عدمِ وجود: بعض لوگوں کا مدعا ہے کہ حسن لغیرہ کا خیر القرون میں کوئی وجود نہ تھا۔ انھوں نے اس اصطلاح کی صراحت نہیں کی، لہٰذا وہ ان کے نزدیک حجت نہیں۔ اس اشکال کی پہلی شق کا جواب یہ ہے کہ خیر القرون سے مراد اگر وہی زمانے ہیں جن کی شریعتِ اسلامیہ میں منقبت بیان ہوئی ہے۔ یعنی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہبی دور، صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کا سنہری دور۔ بالخصوص دورِ نبوی میں اس اصطلاح کے اثبات کا تقاضا تو نہایت مضحکہ خیز ہے، باقی رہے آخری دو ادوار تو ان میں بقدرِ ضرورت اصطلاحات کی تکوین کی گئی۔ فرمانِ نبوی کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے گئے، جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ معروف ہے کہ وہ بطورِ توثیق اور اطمینانِ قلب کے لیے بعض صحابہ کو حکم فرماتے، اس بیان کردہ حدیث میں اپنا مؤید پیش کرو۔ جس طرح انھوں نے حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کو حدیثِ استئذان کی بابت فرمایا تو انھوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو پیش کیا۔ (بخاري: ۲۰۶۲، مسلم: ۲۱۵۳) دریں اثنا مرسل حدیث کا مسئلہ درپیش ہوا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے جب کوئی شخص کہتا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو آپ اس کی طرف اتنی دیر متوجہ نہ ہوتے، جب تک وہ اس فرمان کا سلسلۂ سند نہ بیان کرتا، کیونکہ فتنوں کے