کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 130
تصحیح کر دیتے۔ کتب اسماء الرجال میں ایسی مثالیں شاید کئی دہائیوں تک پہنچ جائیں، ہم صرف ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔ استاذ صاحب نے درسِ حدیث میں ایک حدیث ’’أبو الزبیر المکي عن إبراہیم النخعي‘‘ کی سند سے بیان کی، زیرک شاگرد فوراً بول اٹھا، استاذِ گرامی! ابو الزبیر، ابراہیم سے روایت نہیں کرتے، آپ اپنی حدیث کی اصل کتاب سے مراجعت فرما لیں، جب انھوں نے حدیث کی اصل کتاب دیکھی تو فوراً تصحیح کی، یہ ابو الزبیر نہیں، بلکہ زبیر بن عدی ہے، آگے چل کر یہ شاگردِ رشید شیخ الاسلام امام بخاری رحمہ اللہ کے نام سے معروف ہوا۔ (ھدی الساري، ص: ۴۷۸) اگر کوئی راوی کسی حدیث کو ایک استاذ سے بیان کرتا اور پھر بھول کر اس حدیث کو دوسرے استاذ سے بیان کرتا تو محدثین اس دوسرے استاد سے کی ہوئی روایت کو معلول (ضعیف) قرار دیتے تھے، مگر یہ اصول حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کو نہیں بھایا، وہ رقمطراز ہیں: ’’لوگوں (محدثین) نے احادیث کو اس لیے معلول قرار دیا ہے کہ اس کے راوی ایک مرتبہ فلاں استاذ سے روایت کرتے ہیں، جبکہ دوسری مرتبہ فلاں استاذ سے بیان کرتے ہیں۔ (حافظ ابن حزم تبصرہ کرتے ہیں: حالانکہ) یہ (متعدد اساتذہ سے روایت) حدیث کے قوی ہونے کا سبب ہے اور اس کے دلائل کی صحت میں اضافہ ہے، اور یہ اس آدمی (محدث) کی جہالت کی دلیل ہے جو اس وجہ سے حدیث پر جرح کرتا ہے۔‘‘ الإحکام لابن حزم (۱/ ۱۴۹) حالانکہ علم علل الحدیث کی بنیاد یہی ہے۔ سوال ہے کہ امام ابن معین، امام ابو حاتم، امام ابو زرعہ، امام مسلم، امام دارقطنی رحمہم اللہ حدیث سے بے خبر تھے؟!! حاشا وکلا