کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 109
کوئی مرسل اس کی موافقت کرے، اپنی شروط کے ساتھ (وہ حجت ہوتی ہے)۔‘‘ تدریب الراوي (۱/ ۱۶۰) 36. حافظ زکریا انصاری ۹۲۵ھ: ’’حسن کی دونوں قسمیں: (لذاتہ ولغیرہ) حجت کے اعتبار سے صحیح سے ملحق ہیں۔۔۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ حسن لغیرہ میں ایسے راوی پر اکتفا کیا جاتا ہے جس پر (جھوٹ کا) الزام نہ ہو، اس کا مؤید بھی ضعف میں اس جیسا ہو، باوجودکہ ان میں سے ہر ایک ضعیف اور ناقابلِ احتجاج ہوتا ہے، جب ضعیف راوی، ضعیف راوی سے مل جائے تو اس سے احتجاج کیونکر درست ہوگا؟ [جواب]: اسے جواب دیجیے کہ اس میں کوئی مانع نہیں، کیونکہ حدیث کے ایک یا ایک سے زائد راوی سوءِحفظ ہوں یا مختلط ہوں یا مدلس ہوں، باوجودکہ وہ صدق اور دیانت سے موصوف ہوں تو اس حدیث کی کمی دوسری سند پورا کرے گی، اور وہ مجموعی اعتبار سے کمی پوری کر کے تقویت حاصل کرے گی۔‘‘ فتح الباقي علی ألفیۃ العراقي (۱/ ۹۰ ۔۹۱) گیارھویں صدی ہجری 37. علامہ عبدالرؤف مناوی ۱۰۳۱ھ: موصوف نے نخبۃ الفکر کی شرح میں حسن لغیرہ کو حجت قرار دیا ہے۔الیواقیت والدرر في شرح نخبۃ الفکر (۱/ ۱۶۸۔ ۱۶۹) دوسرے مقام پر رقمطراز ہیں: ’’اس کی سند میں کمزوری ہے مگر تعددِ اسانید کی بنا پر وہ مضبوط ہوجاتی ہے اور بسا اوقات حسن (لغیرہ) بھی بن جاتی ہے۔‘‘فیض القدیر شرح الجامع الصغیر (۴/ ۲۰۴)