کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 108
ہو، جب ایسی حدیث دوسری سند سے آجائے تو اسے تقویت مل جائے گی، اگر اس کا راوی اس درجہ میں ہو جس کے بارے میں ظنِ غالب ہو کہ اس نے اسے (صحیح) حفظ کیا ہوگا۔ اس علم میں ظنِ غالب کا اعتبار ہوگا۔‘‘النکت الوفیۃ للبقاعي (۱/ ۲۳۹) دسویں صدی ہجری 34. حافظ سخاوی ۹۰۲ھ: موصوف رقمطراز ہیں: ’’جس حسن لغیرہ کی متعدد سندیں ہوں اس کے اور جس کی متعدد سندیں نہ ہوں، کے مابین امتیاز کیا جائے گا، اول الذکر قابلِ احتجاج ہوگی اور مؤخر الذکر لائقِ استدلال نہ ہوگی۔‘‘فتح المغیث للسخاوي (۱/ ۸۲) موصوف نے المقاصد الحسنۃ میں متعدد احادیث کو حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔ بلکہ انھوں نے شعبان کی پندرھویں شب کی فضیلت کی بابت احادیث نو صحابۂ کرام سے ذکر کی ہیں۔ جن سے یہ تأثر ملتا ہے کہ وہ ان کے حسن لغیرہ ہونے کے قائل ہیں، مگر ان کی رائے محلِ نظر ہے۔ ملاحظہ ہو: راقم کا ساتواں مقالہ۔ (الأجوبۃ المرضیۃ: ۱/ ۳۲۵۔ ۳۳۲) 35. حافظ سیوطی ۹۱۱ھ: حافظ صاحب فرماتے ہیں: ’’ایسی حدیث سے استدلال کوئی اچنبھا نہیں، جس کی دو سندیں ہوں اگر ان میں سے ایک دوسری سے الگ کر دی جائے تو وہ حجت نہ ہو، جیسا کہ مرسل میں ہوتا ہے، جب وہ دوسری سند سے مسنداً وارد ہو یا