کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 107
33. علامہ بقاعی ۸۸۵ھ:
امام برہان الدین ابراہیم بن عمر جو بقاعی رحمہ اللہ کے نام سے معروف ہیں، انھوں نے حافظ عراقی رحمہ اللہ کی دو کتب (الفیۃ الحدیث اور التبصرۃ والتذکرۃ) پر کچھ فوائد اور نکات ذکر کیے ہیں، بیشتر وہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے استفادہ کرتے ہوئے نکات ذکر کرتے ہیں، جہاں اپنا کلام ذکر کرنا مقصود ہو وہاں’’قُلْتُ‘‘ کے ساتھ اپنی بات ذکر کرتے ہیں، موصوف رقمطراز ہیں:
[اعتراض]: ’’اگر کوئی اعتراض کرے کہ تم جس حدیث سے استدلال کرتے ہو اور تمھارا ہی قول ہے کہ اس کی دو قسمیں ہیں: حسن لذاتہ، حسن لغیرہ۔ پہلی قسم میں کوئی اشکال نہیں، حسن لغیرہ وہ ہے جس کی سند میں راوی جہالت، سوءِحفظ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا گیا ہو، اور وہ دوسری سند سے تقویت حاصل کرے، اگر دوسری سند بھی ضعف میں پہلی کے برابر ہو تو اس سے ضعیف حدیث سے استدلال لازم آئے گا، پہلی سند کی حقیقت واضح ہے اور دوسری سند بھی اگر ضعف میں پہلی کے برابر ہو تو ایسی صورت میں ضعیف، ضعیف سے مل جائے گی؟‘‘
[جواب]: ’’ہم بطورِ جواب عرض کریں گے کہ یہ درست ہے، مگر دو کمزور آدمی ایک توانا آدمی پر تسلط حاصل کر لیتے ہیں۔ (اسی طرح) مجموعی اعتبار سے (حدیث کو بھی) قوت حاصل ہوجاتی ہے۔
اسی طرح ہم نے مستور راوی کو اس کے ضعف کی وجہ سے ناقابلِ قبول قرار نہیں دیا، بلکہ اس کے ضعف کے احتمال اور اس میں ضبط کے فقدان کی وجہ سے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے، ہم نے سوءِحفظ راوی کو اس لیے رد نہیں کیا کہ اس نے (صحیح) حفظ نہیں کیا، بلکہ اس خدشہ کے پیشِ نظر ردّ کیا ہے کہ شاید وہ حفظ نہ کر سکا