کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 106
مرسل حدیث مرسل حدیث کو تقویت دیتی ہے۔فتح الباري (۱۰/ ۲۴۶)، (۱۳/ ۲۶۷) ان دونوں (ضعیف) سندوں کو ابو صالح کی مرسل تقویت دیتی ہے۔فتح الباري (۲/ ۳۳۰) مزید حوالے ملاحظہ ہوں: فتح الباري (۱/ ۲۹۳)، (۳/ ۵۴، ۹۷، ۹۹)، (۷/ ۱۵)، (۸/ ۳۴)، (۱۱/ ۲۳۴)، (۱۳/ ۲۷۱) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بلوغ المرام میں فرماتے ہیں: ’’وکلھا ضعیفۃ، لکن قد تقویٰ بعضھا ببعض‘‘بلوغ المرام (ص: ۲۸۶، حدیث: ۹۵۶۔ ۹۵۸، طبع: دارالسلام) ’’اس حدیث کی سبھی سندیں ضعیف ہیں مگر وہ ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتی ہیں۔‘‘ قارئینِ کرام! آپ نے غور فرمایا کہ صحیح بخاری کی سب سے معتمد علیہ اور بے نظیر شرح میں حافظ صاحب کتنی ضعیف احادیث کو تقویت دے کر حسن لغیرہ بنا رہے ہیں، ان حوالوں میں نزھۃ النظر، الإمتاع، بلوغ المرام کے حوالے شامل کیے جائیں تو یہ نصف صد سے متجاوز ہیں اور اگر ان میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی دوسری کتب کے حوالے بھی داخل کر لیے جائیں تو شاید حسن لغیرہ احادیث سیکڑوں سے بڑھ جائیں۔ شائقین ملاحظہ فرمائیں: التلخیص الحبیر، موافقۃ الخُبر الخَبر، القول المسدد، نتائج الأفکار، الدرایۃ، الأجوبۃ، الأمالي المطلقۃ۔ حسن لغیرہ کی حجیت کو نہ تسلیم کرنے والوں سے سوال ہے کہ کیا استاذ الدنیا فی علم الحدیث پر یہ بات مخفی رہی کہ حسن لغیرہ حجت نہیں؟