کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 105
’’یہ حدیث متعدد اسانید سے مروی ہے، بعض بعض کی تائید کرتا ہے، لہٰذا کم از کم وہ حسن (لغیرہ) ہے۔‘‘ الجوھر النقي (۸/ ۶۳، ۶۴) نیز فرمایا: ’’یہ حدیث کئی سندوں سے مروی ہے، بعض بعض کو تقویت دیتا ہے۔‘‘الجوھر النقي (۸/ ۶۷۔۶۸) 32. حافظ ابن حجر ۸۵۲ھ: حسن لغیرہ کے حوالے سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی متعدد نصوص حسن لغیرہ کی اصطلاحی تعریف میں گزر چکی ہیں، ذیل میں فتح الباری وغیرہ سے مزید اقوال ملاحظہ فرمائیں: ’’فالحدیث حسن لما عضدہ من ذلک‘‘ ھدی الساري (ص: ۱۹) ’’لہٰذا یہ حدیث اپنے عاضد کی وجہ سے حسن (لغیرہ) ہے۔‘‘ موصوف نے متعدد مقامات پر صراحت فرمائی ہے کہ فھذہ طرق یقوي بعضھا بعضاً وغیرہ، یہ اسانید باہم تقویت پہنچاتی ہیں۔ فتح الباري: (۲/ ۱۰۳، ۴۷۲، ۵۵۰، ۵۷۱)، (۳/ ۲۸۸، ۳۹۰، ۵۲۸)، (۴/ ۱۷۲)، (۷/ ۱۵، ۱۷۹)، (۸/ ۶۷، ۱۶۶، ۳۳۵، ۵۰۸، ۶۵۷) (۹/ ۱۷۲، ۱۹۶، ۳۷۰، ۴۲۸، ۴۴۸، ۴۵۵)، (۱۱/ ۴۱۰)، (۱۲/ ۳۱، ۴۰۳)، (۱۳/ ۲۴) کبھی فرماتے ہیں: اس حدیث کی اصل موجود ہے: فتح الباري (۲/ ۶)، (۴/ ۱۷۲)، (۵/ ۳۷۲)، (۸/ ۴۳۹، ۴۶۲، ۵۷۳، ۶۵۴)، (۱۰/ ۲۲۵، ۴۴۶)، (۱۱/ ۳۴۱)، (۱۳/ ۵۲۵، ۵۴۶) نیز فرمایا: یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر مضبوط (حسن لغیرہ) ہے۔فتح الباري (۱/ ۱۶۰، ۲۹۲)