کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 104
’’حسن میں راویان کا ثقہ ہونا شرط نہیں، بلکہ اس میں جھوٹ کی تہمت والا راوی نہ ہو، اور وہ دوسری سند سے مروی ہو تو سابقہ شرائط کے مطابق وہ حسن (لغیرہ) ہوگی، غیر متہم، ثقہ یا مستور سے بہت عام ہے، جمہور کے نزدیک مستور غیر مقبول ہے، بسا اوقات مستور مستور کی متابعت کرے گا، اگر وہ دونوں کسی حدیث کو بیان کرنے میں منفرد ہوں تو وہ حدیث ضعیف ہوگی (حسن لغیرہ نہ ہوگی)۔‘‘فتح المغیث (ص: ۳۸)، التبصرۃ والتذکرۃ (۱/ ۹۰۔ ۹۱)
30. علامہ ابن الوزیر الیمنی ۸۴۰ھ:
موصوف فرماتے ہیں:
’’محدثین کی اصطلاح میں یہ وہی ضعفاء ہیں جن کی حدیث (کا ضعف) شواہد وغیرہ سے منجبر ہوتا ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے۔‘‘
تنقیح الأنظار (۱/ ۱۸۹۔ مع شرحہ: توضیح الأفکار)
31. علامہ ابن الترکمانی ۸۴۵ھ:
امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’اس کی سند میں کمزوری ہے۔‘‘
علامہ ابن الترکمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ذکرہ عبدالرزاق في مصنفہ۔۔۔ عن أنس، فیقوي الحدیث بھذہ المتابعۃ‘‘ (الجوہر النقي: ۷/ ۴۵۰، مع السنن الکبری للبیھقي)
’’مصنف عبدالرزاق میں یہی حدیث دوسری سند سے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، لہٰذا اس متابعت کی وجہ سے حدیث قوی ہوجاتی ہے۔‘‘
مزید فرمایا: