کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 102
موصوف مزید فرماتے ہیں: ’’ان سندوں میں کمزوری ہے، ممکن ہے کہ بعض بعض کو تقویت دے۔‘‘ تفسیر ابن کثیر (۱/ ۱۷۰، سورۃ البقرۃ، آیت: ۱۱۵) نیز اس حوالے سے ملاحظہ ہو: (۱/ ۲۱۴، سورۃ البقرۃ: ۱۵۹۔ ۱۶۲)، (۲/ ۱۹۶، سورۃ الأنعام: ۱۲۵) 26. علامہ زرکشی ۷۹۴ھ: موصوف النکت میں حافظ ابو الفتح الیعمری ابن سید الناس رحمہ اللہ کا قول ذکر کرکے فرماتے ہیں: ’’یہ عمدہ تفصیل ہے، یہ پوشیدہ نہیں کہ یہ سب کچھ تبھی ہوگا جب حدیث کا تعلق احکامِ شرعیہ سے ہوگا، اگر وہ حدیث فضائل کی بابت ہو تو اس میں متابعت بہر صورت فائدہ مند ہوگی، کیونکہ وہ (فضائل میں) انفرادی طور پر بھی مفید ہے۔‘‘النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح للزرکشی (ص: ۱۰۴) علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے حسن لغیرہ کے دائرہ کو زیادہ وسیع کر دیا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ اس میں قرائن کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا، جیسا کہ دیگر محدثین کا موقف ہے۔ 27. حافظ ابن رجب ۷۹۵ھ: موصوف معروف ضعیف حدیث ’’لا ضرر ولا ضرار‘‘ کے بارے میں امام نووی سے نقل کرتے ہیں: ’’وقد ذکر الشیخ رحمہ اللّٰه أن بعض طرقہ تقوی ببعض، وھو کما قال‘‘ ’’شیخ (نووی) نے (اربعین میں) ذکر کیا ہے کہ اس حدیث کی بعض سندیں بعض کو تقویت دیتی ہیں، بلاشبہ امام نووی رحمہ اللہ نے درست کہا