کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 101
سے درجۂ حسن (لغیرہ) تک پہنچ جائے گی، کیونکہ اس وقت وہ خدشہ زائل ہوچکا ہے جو رواۃ کے سوءِحفظ کے پیشِ نظر تھا، اور ہر ایک دوسرے کو تقویت دیتا ہے۔‘‘ جامع التحصیل للعلائي (ص: ۳۸) حافظ علائی رحمہ اللہ سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں: ’’مشار إلیہ حدیث بسا اوقات اپنی متعدد سندوں سے حسن (لغیرہ) کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘ النکت لابن حجر (۱/ ۴۰۹) 24. علامہ زیلعی ۷۶۲ھ: ’’مرسل حدیث ہے، مگر وہ اپنے علاوہ دیگر مرفوع اور موقوف روایات سے تقویت حاصل کر لیتی ہے۔‘‘ (نصب الرایۃ: ۳/ ۳۵۸) 25. حافظ ابن کثیر ۷۷۴ھ: موصوف فرماتے ہیں: ’’ابو عمر (حافظ ابن الصلاح) نے فرمایا کہ کسی حدیث کی متعدد سندوں سے اس کا حسن لغیرہ ہونا لازم نہیں آتا، جیسے حدیث: ’’الأذنان من الرأس‘‘ ہے، کیونکہ ضعف مختلف قسم کا ہوتا ہے، بعض ضعف متابعات سے بھی دور نہیں ہوتے، یعنی کسی کا متابِع ہونا یا کسی کا متابَع ہونا مؤثر نہیں، جسے جھوٹوں اور متروک راویان کی احادیث ہیں، کچھ ضعف متابعت سے زائل ہوجاتا ہے جیسے وہ حدیث جس کے راوی کا حافظہ خراب (سوءِحفظ) ہو، یا وہ حدیث کو مرسل بیان کرے، تب متابعات فائدہ مند ہوں گے اور ایسی حدیث ضعیف کی پستی سے نکل کر حسن (لغیرہ) یا صحیح (لغیرہ) کی بلندی تک پہنچ جائے گی۔‘‘ اختصار علوم الحدیث لابن کثیر (ص: ۴۰، مع شرحہ: الباعث)