کتاب: مقالاتِ اثریہ - صفحہ 100
21. امام ابن القیم رحمہ اللہ ۷۵۱ھ:
موصوف ایک ضعیف حدیث کے جواب میں رقمطراز ہیں:
’’یہ اور اس جیسی دیگر احادیث حسن احادیث ہیں، کیونکہ ان کی متعدد سندیں ہیں، وہ مختلف سمتوں سے مروی ہے، اس کے مخارج معروف ہیں، اس کے راوی مجروحین اور متہمین نہیں ہیں...۔‘‘تہذیب مختصر سنن أبي داود (۴/ ۱۷۱)
علاوہ ازیں حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے متعدد احادیث کو حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔
22. علامہ تقی الدین سبکی ۷۵۶ھ:
علامہ صاحب رقمطراز ہیں:
’’اس قسم کی ضعیف حدیثوں کا اجتماع اس کی قوت میں اضافہ کرتا ہے اور بسا اوقات وہ حدیث اس کی بدولت حسن (لغیرہ) یا صحیح (لغیرہ) کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘ قواعد في علوم الحدیث للتھانوي (ص: ۸۲)
23. حافظ علائی ۷۶۱ھ:
موصوف رقمطراز ہیں:
’’ایک حدیث کا دوسری حدیث سے ملنے سے ظنِ غالب ہوتا ہے کہ اس کی اصل ہے، اگرچہ وہ دونوں انفرادی طور پر فائدہ نہیں دے سکتیں، یہ ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے: ضعیف حدیث، جس کا ضعف راوی کے حافظہ کی کمزوری اور کثرتِ غلط کی وجہ سے ہو، جھوٹ کے الزام کی وجہ سے نہ ہو، جب اس جیسی حدیث دوسری سند سے مروی ہو جس کے رواۃ اس سند (کے راویان) جیسے ہوں تو وہ اپنے مجموعے