کتاب: مومن کی نماز - صفحہ 101
فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ))[1]
’’بے شک جوکچھ اللہ نے لے لیاہے وہ اسی کاتھا اور جودیا ہے وہ بھی اللہ ہی کا ہے ۔ اور ہر چیز اللہ کے ہاں ایک مدت مقررہ تک کے لیے ہے لہٰذا تم صبرکرو اورثواب کی امید رکھو۔‘‘
2۔ (( أَعْظَمَ اللّٰہُ أَجْرَکَ وَأَحْسَنَ عَزَائَ کَ وَغَفَرَلِمَیِّتِکَ۔))[2]
’’اللہ تعالیٰ تیرے اجرکو بڑھائے اور تمہیں اچھے طریقے سے تسلی دے اور تمہارے فوت شدہ کو معاف فرمائے۔‘‘
نوٹ:… تعزیت کاکوئی بھی وقت متعین نہیں جب بھی ممکن ہو یہ جائز ہے ۔ اصل مسلمان کا حق یہ ہے کہ اس کا جنازہ پڑھا جائے ، دعا کی جائے اور اس کے اہل وعیال کو صبرکی تلقین کی جائے اور نوحہ(رونا ، پیٹنا ) کرنے سے روکا جائے۔ سوگ کے لیے کسی خاص جگہ پر جمع ہونا اور دعوتوں کا اہتمام کرنا شرعا جائز نہیں ہیں۔ جیسا کہ جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( کُنَّا نَعُدُّالْاِجْتِمَاعَ إِلٰی أَہْلِ الْمَیِّتِ وَصَنِیْعَۃَ الطَّعَامَ بَعْدَ دَفْنِہٖ مِنَ النِّیَاحَۃِ۔))[3]
’’ہم اہل میت کے گھر جمع ہونا ، اور میت کی تدفین کے بعد کھانے کے اہتمام کرنے کو نوحہ میں شمار کرتے تھے۔‘‘
[1] صحیح البخاری : کتاب الجنائز : باب قول النبی صلي الله عليه وسلم یعذب المیت ببعض بکاء أھلہ :1284،ومسلم : کتاب الجنائز: باب البکاء علی المیت :2135۔
[2] الأذکار للنووی:ص/190۔
[3] مسند الإمام أحمد : 6905۔