کتاب: مومن کی زینت داڑھی - صفحہ 84
موقوف آثارکی نفی کرتی ہیں، ان آثار کو مرفوع اور صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے حجت بنانا صحیح نہیں، پس سالم وصحیح قول ان لوگوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ظاہر حدیث پر عمل کرتے ہوئے داڑھی کو معاف کر دینا چاہیے اور اس کے طول وعرض سے کچھ بال بھی لینا مکروہ ہے۔‘‘ تو اے غیورمسلمان! غیور بن اور اٹھ! جو لوگ یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ داڑھی کٹوانا سنت ہے ان کا رد سب سے پہلے خود عمل کرکے کرپھر ان مسلمانوں کو اس سنت کی دعوت دے جس کا نام سنت محمدی ہے اور یاد رکھ اسی نے جنت کا وارث بنانا ہے۔ اس ساری تقریر وبحث کو پڑھنے کے بعد پھر بھی اگر کوئی یہ کہے کہ داڑھی کو ہاتھ لگانا اس نیت سے کہ اس سے بالوں کو اُکھاڑے، کاٹے، نوچے یا مونڈھے تو پھر وہ اپنے ایمان کا جائزہ لے کہ آیااس نے جو کلمہ پڑھا تھا اس پر ثابت قدم ہے کہ پھر چکا ہے اور اتنے دلائل واضح ہو جانے کے بعد پھر بھی بات سمجھ نہ آئے پھر تو یہی کہا جا سکتا ہے : و لیس یصح فی الاذھان شیء اِذا احتاج النھار اِلی دلیل ’’جب چڑھا ہوا سورج بھی دلیل کا محتاج ہو تو پھر اس دماغ کی صحت کا کیا حکم لگایا جا سکتا ہے (وہ دماغ خراب ہے، ٹھیک نہیں)۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہمیں سنتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنانے کی توفیق عطا فرمائے ، ہماری ایمانی غیرت کو جگائے اور سلامت رکھے۔ آمین۔
[1] تحفۃ الاخودی8/49، ح: 276 3۔