کتاب: مومن کی زینت داڑھی - صفحہ 82
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰہِ کہا تو پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والا ان کو ذرا غور سے پڑھے کہ ان احادیث میں کیا محمد کا فرمان ہے یا محمد کا فعل ہے؟ اگر نہیں تو فوراً اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے اورسجدے میں پڑ جائے کہ الٰہی! میں نے محمد رسول اللہ کہا تھا، ابن عمر رسول اللہ نہیں کہا تھا۔ مجھے معاف فرما آج کے بعد نہ میں خود کٹواؤں گا نہ کسی کو کہوں گا بلکہ منع کروں گا۔ کیونکہ طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قبول ہو گا، سنت اُن کی مقبول ہوگی۔ اس لیے میرے مسلمان بھائی!یہ صحابی کا عمل تھا جو کہ اس کا اپنا فہم تھا اور معصوم عن الخطانبی کی ذات کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتی اس لیے یہ حجت نہیں بن سکتی۔ ٭ دیکھیں ان چھ روایات میں4روایات ابن عمر کا فعل ہیں لیکن انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں جو کہوں اس کو لکھو کیونکہ میری زبان سے حق کے سوا نہیں نکلتا (صحیح الجامع 1207 والسلسلۃ الصحیحۃ15 32)پھر اسی صحابی جلیل نے بخاری، مسلم ، الموطا، والترمذی ، ابوداؤد اور احمد میں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نقل کیا کہ داڑھی کو معاف فرما دو، جیسا کہ داڑھی کے دلائل میں پہلی چھ قولی احادیث ہم نے نقل کی ہیں اور انہی کے بارے میں داڑھی کے فضائل میں سے پانچویں فضیلت میں پڑھا کہ ابو رافع نے ان کو داڑھی کو معاف کیا ہوا دیکھا (مجمع الزوائد5/166) تو ایک طرف اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے دوسری طرف ان کا ذاتی فعل ہے۔ تو بتائیں دونوں میں نبی کون ہے؟ کس کا کلمہ پڑھا ہے؟ کس کی ذات بہترین نمونہ ہے؟ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ پھر مذکور ابو رافع کی روایت یہ بتلاتی ہے کہ پہلے کاٹتے تھے پھر معاف کر دیا تھا، جب حقیقت آشکارہ ہو گئی۔ تو بات یہاں ہی ختم ہو جائے گی کہ ہم نبی کے پیروکار ہیں لیکن قاعدہ بھی یہ ہے کہ ((العبرۃ بما روی لا بما رای)) ’’اعتبار صحابی کے اس قول کا ہو گا جو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہو نہ کہ اس کا جو اس کی اپنی رائے ہو۔‘‘ ٭ صحابی کا فعل جب تک مجمع علیہ نہ ہو اس وقت تک حجت نہیں ہوتا جیسا کہ قاعدہ ہے
[1] الموطا 382 [2] المؤطا : 922 [3] الموطا 886۔ [4] ابوداؤود 4201۔ ضعیف۔