کتاب: مومن کی زینت داڑھی - صفحہ 8
سبب تالیف کسی بھی شخص کو جاننے اور سمجھنے کے لیے اس کی شکل وصورت بڑا کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔اس کی وجاہت ، بدن کی ساخت اور خصوصاً اس کے چہرے کے خدوخال اس کے ذہنی ، اخلاقی ، معاشرتی مقام ومرتبہ کے آئینہ دار اور ترجمان ہوتے ہیں۔ الغرض چہرہ انسانی ڈھانچے کاعکاس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن سلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کی جھلک دیکھتے ہی کہہ دیا تھا: اِنَّ وَجْہَہُ لَیْسَ بِوَجْہٍ کَذَّابٍ’’بے شک یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا نہیں ہو سکتا‘‘…اور جب ابو رمثہ تیمی رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شگفتہ رو کو دیکھتے ہی سمجھ گئے اور فوری گویا ہوئے : ((ھٰذا واللّٰہ رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ))… (مسند احمد2/228، ح:7118) ’’اللہ کی قسم!یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ لہٰذا اس کتاب کو تالیف کرنے کا بڑا سبب یہی تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کی ضیا پاشیاں مسلمانوں پر ظاہر کی جائیں تاکہ مسلمان اس کتاب کو پڑھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کو اور اس پر سجے زیور (داڑھی) کو الفاظ کے آئینہ میںدیکھنے کے شرف سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی سیرت وصورت کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ وہ چہرۂ انور جس کے بارے میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بے تکلفی کے موقع پر بڑے لطیف انداز میں ابو کبیر ہذلی کے شعر کا ذکر کیا اور اس کا مصداق کونین کے تاجدار کو بنایا۔ وَاِذَا نَظََرْتُ اِلَی أَسَارِیْرِ وَجْہِہِ بَرِقَتْ کَبَرْقِ الْعَارِضِ الْمُتَہَلِّلْ ’’جب میں نے اس کے روئے تاباں پرنظر ٹکائی تو اس کی شان رخشندگی ایسی تھی