کتاب: مومن کی زینت داڑھی - صفحہ 54
یہ اس لیے کہ کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے کچھ دواعی و جوالب ہوتے ہیں۔ انسان نجات کا خواہشمند بھی ہو پھر نجات کے حصول کو ممکن بنانے والے اسباب سے دور رہے تو نجات ممکن نہیں جیسا کہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا: تَرْجُوا النَّجَاۃَ وَلَمْ تَسْلُکْ مَسَالِکَہَا اِنَّ السَّبفِیْنَۃَ لَا تَجْرِیْ عَلَی الْیَبِیْسِ ’’نجات کی امید بھی رکھتے ہیں اور پھر اس کے راستون پر چلتے بھی نہیں، کشتی خشکی پرنہیں چل سکتی۔‘‘ جس طرح کشتی خشکی پر نہیں چل سکتی اس کے لیے پانی ضروری ہے اسی طرح نجات ممکن نہیں ہو سکتی جب تک نیک اعمال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم وعمل کے مطابق نہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں داڑھی کو معاف کرنے کا حکم دیا ہے وہاں داڑھی کے سفید بالوں کو اکھاڑنے سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: (( لَا تَنْتَفُوا الشَّیْبَ… اِلَّا کَانَتْ لَہٗ نُوراً…))[1] ’’سفید بالوں کو نہ اکھاڑو کیونکہ جس شخص کے اسلام میں بال سفید ہوئے وہ قیامت کو اس کے لیے نور ہو گا۔‘‘ اب یہ سفید بال خواہ سر میں ہوں یا داڑھی میں ہوںجیسا کہ انس رضی اللہ عنہ نے واضح الفاظ کہے ہیں کہ: ((یُکْرَہُ اَنْ یَّنْتِفَ الرَّجُلُ الشَّعْرَۃَ الْبَیْضَائَ مِنْ رَاْسِہِ وَلِحْیَتِہِ)) [2] ’’اس بات کو بھی مکروہ خیال کیا جاتا تھا کہ کوئی شخص اپنے سر یا داڑھی سے ایک بھی سفید بال اکھاڑے۔‘‘ حتی کہ جو شخص اپنی داڑھی کے سفید بالوں کو اکھاڑتا ہے عمر رضی اللہ عنہ اور ابویعلی (جو کہ مدینہ طیبہ کے قاضی تھے) نے اس کی گواہی وشہادت قبول نہیں کی۔امام نووی اور غزالی فرماتے ہیں:
[1] صحیح الجامع746 3، ح: 7 340۔ [2] مسلم2 341۔