کتاب: مومن کی زینت داڑھی - صفحہ 45
کی ایک جماعت نے دین بھی نقل کیا ہے۔ (فتح الباری10/417) اس عبارت سے معلوم ہوا کہ سارے انبیاء ہی داڑھیوں والے تھے کیونکہ داڑھی اگر خوبصورتی کا مظہر نہ ہوتی تو کسی نبی کو بھی اللہ تعالیٰ داڑھی نہ دیتے۔ تو گویا داڑھی انبیائے کرام کی سنت متواترہ ہے کیونکہ فطرت الٰہی ہے اور اس کا بدلا جانا محال ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں واضح لفظ آئے ہیں:
{لَا تَاخُذْ بِلِحْیَتِی وَلَا بِرَاسِی} (طہ:94)
’’ہارون ،موسیٰ علیہم السلام کو فرماتے ہیں کہ’’میرے سر اور داڑھی کو نہ پکڑو‘‘
آدم وموسیٰ علیہم السلام کی داڑھیاں بھی تھیں(الدرر المنثور1/62) تو پتہ چلا کہ داڑھی جہاں انبیاء کی سنت ہے، فطرت الٰہیہ ہے وہاں دین بھی ہے (جیسا کہ نقل ہوا) جس سے داڑھی کی شان و عظمت مزید نکھرتی ہے کیونکہ جب داڑھی دین ہے تو بغیر داڑھی والا بے دین سمجھا جائے گا۔اور جب یہ تمام انبیاء کی سنت ہے اور سب شریعتیں اس پر متفق ہیں تو پھر بغیر داڑھی کے رہنا انبیاء کی نافرمانی اور تمام شریعتوں سے بغاوت ہے ۔داڑھی ہی ایک امتیازی نشان ہے جس سے ہر شخص پہچانا جاتا ہے کہ وہ اصلی فطرت اسلامی پر قائم ہے یا نہیں؟ اللہ ہمیں فطرت اسلام پر قائم رہنے کی توفیق دے اور اس سے اعراض وانحراف کرنے اور تاویلات کرنے سے بچائے۔ (آمین)
9۔ طلق بن حبیب فرماتے ہیں :
((عَشْرَۃٌ مِنَ السُّنَّۃِ اَلسِّوَاکُ وَقَصُّ الشَّارِبِ وَتَوْفِیْرِ اللِّحْیَۃِ)) [1]
’’دس چیزیں سنت میں سے ہیں، مسواک کرنا، مونچھیں کٹوانا اور داڑھی کو وافر کرنا۔‘‘
اس حدیث سے ایک تو داڑھی کو وافر کرنا ثابت ہوا دوسرا یہ ثابت ہوا کہ یہ سنت ہے جیسا کہ اس سے قبل بیان ہو چکا ہے۔
10۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیںکہ آپ نے فرمایا:
((قَصُّوا الشَّوَارِبَ وَاعْفُوا اللِّحَیٰ))[2]
[1] النسائی 5042۔
[2] احمد 2/222، ح:71 32