کتاب: مومن کی زینت داڑھی - صفحہ 42
داڑھی کاٹنا صرف یہودیوں کی مشابہت نہیں بلکہ مشرکین کی بھی عادت ہے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے چھٹی روایت گزری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مسند بزار میں روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اہل شرک مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور داڑھیوںکو منڈھواتے ہیں۔ ((فَخَالِفُوھُمْ فَاعْفُوا اللِّحَیٰ وَاحْفُوا الشَّوَارِبَ)) ’’تم ان کی مخالف کرو ، داڑھیوں کو معاف کرو اور مونچھوں کو منڈھواؤ۔‘‘ اور ایک حدیث میں یہ مجوسیوں کا طرز عمل بیان کیا گیا ہے (جیسا کہ عنقریب آئے گا) اس سے معلوم ہوا کہ داڑھی کو معاف نہ کرنا، اس کو منڈھوانا یا اس کو کاٹنا یہودیوں، مشرکوں اور مجوسیوں کا فعل ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ۔ لہٰذا اے مسلمان!دیکھ کہیں تو مومنوں کے فعل کو چھوڑ کر مذکورہ اقوام عالم کا شریک تو نہیں بن رہا؟ بقول شاعر اے چشم اشک بار ذرا دیکھ تو سہی یہ گھر جو جل رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو 7۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((جُزُّوا الشَّوَارِبَ وَاَرْخُوا اللِّحَیٰ خَالِفُواالْمَجُوسَ))[1] ’’مونچھوں کو کاٹو اور داڑھیوںکو لٹکاؤ، مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘ یہ معنی اس وقت متحقق ہو سکتا ہے جب داڑھی کو بالکل چھوڑ دیا جائے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا تعرض نہ کیا جائے۔ ارخاء کا معنی لٹکانے اور طول دینے کے ہیں۔ چنانچہ کہا جاتا ہے(ارخیت الستر وغیرہ اذا ارسلتہ) یعنی ارخیت الستر اس وقت بولا جاتا ہے جب پردے کو یا کسی چیز کو لٹکایا جائے۔ اور کہا جاتا ہے: (( ارخی الفرس ولہ طول من جلہ والستر اسد لہ)) [2]
[1] مسلم 60 3۔ [2] المعجم الوسط1،2/ 3 36، وترتیب القاموس2/ 3 32، وتھذیب الصحاح 3/976۔