کتاب: مومن کی زینت داڑھی - صفحہ 32
زمین میں دھنسائے جانے کا باعث ہے۔ اور وہ علم ہی نہیں چہ جائیکہ وہ سنت کا درجہ رکھے اور قابل عمل ہو۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ تو کتاب و سنت سے ہٹ کر فتویٰ دینے کے اتنے خلاف تھے کہ فرمایا: ((اِنْ الذی یُفْتِیْ الناس فی کل ما یستفتی لمجنون))[1] ’’جو لوگوں کے ہر پوچھے گئے مسئلے میں فتویٰ دیتا ہے وہ تو مجنون ہے۔‘‘ ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں قتادۃ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک آدمی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنائی تو آدمی نے کہا(قال فلان کذا و کذا) کہ فلاں تو یوں یوں کہتا ہے تو ابن سیرین نے فرمایا: ((احدثک عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم و تقول قال فلان کذا وکذا لااکلمک ابدا))[2] ’’میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتلا رہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ فلاں نے یوں کہا ہے، میں( آج کے بعد) تیرے ساتھ کلام ہی نہیں کروںگا۔‘‘ اور عمر بن عبدالعزیز نے بھی یہی اعلان کیا تھا: (( لَا رَاْیَ لِاَحَدٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ وَاِنَّمَا رَاْیُ الْاَئِمَّۃِ فِیْمَا لَمْ یُنْزَلْ فِیْہِ کِتَابٌ وَلَمْ تَمْضِ بِہِ سُنَّۃٌ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَلَا رَاْیَ لِاَحَدٍ فِیْ سُنَّۃٍ سَنَّہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ۔)) [3] ’’کسی کی رائے کتاب اللہ میں نہیں چل سکتی، ائمہ کی رائے اس مسئلے میں سنی جائے گی جس مسئلہ میں کتاب اللہ (قرآن مجید) نہ اتری ہو اور نہ ہی اس میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہو۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جو آپ نے جاری کی ہے اس میں کسی کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔‘‘
[1] الدارمی176 انفرو بہ الدارمی۔ [2] الطبرانی445 [3] الدارمی4 36 انفرو بہ الدارمی۔