کتاب: مومن کی زینت داڑھی - صفحہ 31
یا فعل کی کوئی قدر نہیں ہو گی جس کا خود صحابہ نے اعتراف کیا۔چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: (( اِذَا سَمِعْتُمُوْنِیْ اُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَلَمْ تَجِدُوْہُ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ اَوْ حَسَنًا عِنْدَ النَّاسِ فَاعْلَمُوْا اَنِّیْ قَدْ کَذَبْتُ عَلَیْہِ۔)) [1] ’’جب میں کوئی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کروں اور تمہیں وہ بات کتاب اللہ میں نہ ملے اورنہ ہی وہ لوگوں کے ہاں حسن ہو(یعنی دینی اعتبار سے اس کو اچھا نہ گردانیں) تو جان لو کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا ہے۔‘‘ اور یہ بھی فرمایا : (( اَمَا تَخَافُوْنَ اَنْ تُعَذَّبُوْا اَوْ یُخْسَفُ بِکُمْ اَنْ تَقُوْلُوْا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَقَالَ فُلَانٌ۔)) [2] ’’کیا تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تمہیں اس وجہ سے عذاب دیا جائے یا زمین میں دھنسا دیا جائے کہ تم یہ کہو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور فلان یہ کہتا ہے۔‘‘ حتیٰ کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تو یہ فرمایا: ((العلم ثلاثۃ کتاب ناطق و سنۃ ماضیۃ ولا ادری))[3] ’علم تین چیزوں کا نام ہے: (1) قرآن مجید۔ (2) سنت نبوی(گزری ہوئی سنت) اور( 3)(جو مسئلہ معلوم نہ ہو اس کے بارے میں یہ کہنا کہ)میں نہیں جانتا۔‘‘ تو معلوم ہوا کہ قرآن مجید اور سنت مطہرہ کو چھوڑ کر کسی کا قول لے لینا عذاب الٰہی اور
[1] الدارمی597 [2] الدارمی4 35 انفرو بہ الدارمی۔ [3] الطبرانی، ومفتاح الجنۃ للسیوطی ص57۔