کتاب: مومن کی زینت داڑھی - صفحہ 30
قول وفعل بھی آ جائے تو وہ نبی کے مخالف ہو گا، سنت کے مخالف ہو گا…اور وہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض تو کرے گاجس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہوں گے۔ وہ اللہ اور اس کے رسول کی رضا کا سبب نہیں بن سکتا خواہ جتنے بھی استدلالات، اجتہادات اور استنباطات سامنے لائے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس منہج کو سمجھانے کے بعد واقعتاً صحابہ رضوان اللہ علیہم نے بھی یہی منہج سینے سے لگایا چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود پر آئے اسے بوسہ دیا اور فرمانے لگے : اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نقصان دے سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے: (( وَلَوْ لَا اَنِّیْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ۔))[1] ’’اگر میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تیرا بوسہ نہ لیتا۔‘‘ یعنی صرف اللہ کے رسول کی پیری میں بوسہ لے رہا ہوں اور فرمایا : ((مَالَنَا وَلِرَمْلٍ اِنَّمَا کُنَّا رَائَیْنَا بِہِ الْمُشْرِکِیْْنَ وَقَدْ أَہْلَکَہُمُ اللّٰہُ ثُمَّ قَالَ شَیْئٌ صَنَعَہُ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم فَلَا نُحِبُّ اَنْ نَّتْرَکَہ۔)) [2] ’’ہمیں رمل کرنے کی کیا ضرورت ہے یہ تو ہم نے مشرکین کو قوت دکھلانے کے لیے کیا تھا اور (اب) مشرکین کو اللہ نے ہلاک کر دیا ہے۔ پھر فرمایا : یہ کام چونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اس لیے ہم پسند نہیں کرتے کہ اس کو ترک کریں۔‘‘ گویا صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں یہ کام کیا وگرنہ وہ علت باقی نہیں رہی تھی جس کی وجہ سے حکم دیا گیاتھا۔ اس سے پتہ چلا کہ نبی کے قول وفعل کے آ جانے کے بعد کسی علت، قول
[1] صحیح البخاری، حدیث نمبر: 1597۔ [2] البخاری1605۔