کتاب: مومن کی زینت داڑھی - صفحہ 27
وَسُنَّۃُ نَبِیِّہِ)) [1]
((وفی روایۃ: الشَّیئَیْنِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَھُمَا: کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّتِی، وَلَنْ یَّتَفَرَّقَا حَتَّیٰ یَردا عَلَی الْحَوْضِ))
’’اے میرے صحابہ! میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک کتاب اللہ (قرآن مجید) اور اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، جب تک ان کو تھامے رکھو گے تم گمراہ نہیں ہو گے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ گمراہی اسی وقت اپنا ڈیرہ جماتی ہے جب قرآن وسنت سے اعراض کیا جائے یا ان میں تیسری چیز کی آمیزش کی جائے۔ اسی منہج کو محفوظ کرنے کے لیے فرمایا:
((اِنَّمَا اَخَافُ عَلَیٰ اُمَّتِی الاَئِمَّۃُ الْْمُضِلِّینَ))[2]
’’مجھے اپنی امت پر اس بات کا ڈر ہے کہ ان میں گمراہ کرنے والے ائمہ ہوں گے‘‘ (یعنی وہ قرآن وسنت کے منہج کو ترک کرکے تیسری چیز کو رواج دیں گے یا آمیزش کریں گے۔)
امام اور ائمہ تو دور کی بات ہے ان کی اپنی زندگی میں وہ امام (جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کے حبیب نے فرمایا تھا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوتا) تو رات کا نسخہ لے کر آ جاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں: اے اللہ کے رسول ! یہ تو رات کا نسخہ ہے تو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرئہ مبارک غصے سے متغیر ہو گیا، جب عمر رضی اللہ عنہ کو اس نسخے کو پڑھتے دیکھا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تجھے گم پانے والیاں گم پائیں تم اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ نہیں دیکھ رہے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے جب اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو دیکھا تو فوراً گزارش کی: میں اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں، ہم اللہ تعالیٰ کو رب مانتے ہوئے، اسلام کو دین مانتے ہوئے اور محمد
[1] الموطا1708، وصحیح الجامع 29 34 ، والحاکم 1/9 3۔
[2] مسلم 7187، صحیح الجامع 2 312، ابو داؤد 4252، والترمذی 2176 وابن ماجہ 3952۔