کتاب: مومن کی زینت داڑھی - صفحہ 26
کی جاتی ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو حکم دیاتھا : (( اُکْتُبْ فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہٖ مَا یَخْرُجُ مِنْہُ اِلَّا حَقٌّ۔)) [1] ’’اے عبداللہ بن عمرو! تو لکھ اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے) کبھی بھی سوائے حق کے کچھ نہیں نکلا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تمام طریقوں سے افضل واشرف و اعلیٰ ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور حمدوثنا کے بعد فرمایا: ((وَاَحْسَنَ الْھَدْیِ مُحَمَّدِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ )) [2] ’’سب سے افضل ہدی(طریقہ ، سیرت ، راہنمائی) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی ہے۔‘‘ کیونکہ انسان مسلمان ہوتا ہی اس وقت ہے جب وہ لاالہ اِلا اللّٰہ کے ساتھ محمد رسول اللّٰہ کہتا ہے اور اس لیے کہ کل کائنات کے لیے قیامت تک کا آئیڈیل اور نمونہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ کسی صحابہ یا تابعی یا عالم یا پیر کی نہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:21) ’’یقینا تمہارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ، آپ کا قول اور تقریر کسی بھی عمل کے عمدہ اور درست ہونے کے لیے کسوٹی ہے۔ اس دنیا سے جاتے وقت آپ اس نسخہ کیمیا اور کسوٹی کا سبق یوں دے کر گئے ہیں: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((تَرَکْتُ فِیکُمْ اَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابُ اللّٰہِ
[1] صحیح الجامع : 1207۔ السلسلۃ الصحیحۃ 15 32، والدارمی488۔ [2] مسلم:2002۔ النسائی واللفظ لہ: 1578۔ ابن ماجہ: 45۔