کتاب: مومن کی زینت داڑھی - صفحہ 15
کا ہار گلے میں ڈال کر {فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا} (بڑی کامیابی) سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔ 3۔داڑھی رکھنا انبیائے کرام کی سنت ہے: داڑھی رکھنا جہاں فطرت و اطاعت ہے وہاں یہ تمام انبیائے کرام کی سنت ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ جل شانہ ہارون علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو شرک میں مبتلا دیکھا تو اپنے بھائی کے سر اور داڑھی کے بالوں کو پکڑا تو ہارون علیہ السلام نے عرض کی: اے میرے بھائی: {لَا تَأخُذْ بِلِحْیَتِی وَلَا بِرَأسِی} (طہ 94) ’’میری داڑھی اور میرے سر سے مجھے نہ پکڑیے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ان کی داڑھی کافی بڑی اور وافر تھی ۔ اگر قبضے سے کم ہوتی یا بالکل نہ ہوتی تو موسیٰ علیہ السلام کیسے پکڑتے اور داڑھی پکڑنے کا کیسے ارادہ کرتے؟ دوسرا یہ کہ بلاشبہ ہارون علیہ السلام ان سے ایک سال یا اس سے زیادہ بڑے تھے تو داڑھی اور سر کو پکڑ کر یہ بتلایا کہ اصل فطرت داڑھی ہے اور صحیح عقل کی نشانی ہے۔ داڑھی اور کامل عقل کے ہوتے ہوئے شرک کو قبول نہیں کیا جا سکتا تو تو نے قوم کو شرک سے منع کیوں نہیں کیا؟ جس پر انھوں نے معقول حجت پیش کی تو پھر چھوڑا ۔ خود موسیٰ علیہ السلام اور آدم علیہ السلام کی داڑھیاں تھیں۔ جیسا کہ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے (الدرر المنثور1/62) میں نقل کیا ہے ۔اللہ جل شانہ نے سابق انبیاء کی پیروی کا حکم دیا ہے: {اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰ ہُمُ اقْتَدِہْ } (الانعام:90) ’’یہ انبیاء ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی تھی سو آپ بھی ان کے مقتدی بن جایئے اور انہیں کی اقتداء کیجیے۔‘‘ تو معلوم ہوا کہ داڑھی رکھنا انبیاء کی سنت اور اقتداء ہے اور ہدایت کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے، اور انبیائے کرام کی سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)