کتاب: مومن کی زینت داڑھی - صفحہ 14
کا مظہر ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اس ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید اور حدیث شریف میں کوئی فیصلہ سنا دیں تو پھر اس کی اطاعت ضروری ہو جاتی ہے اور اس سے منہ موڑنے والا نافرمان ہی ہو سکتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
{وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ} (الاحزاب: 36)
’’اور کسی مومن مرد و عورت کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( اعْفُوا اللّحَیٰ۔))[1]
’’داڑھیوں کو معاف کرو۔‘‘
مختلف احادیث میں …أوْفُوا، أَرْخُوا، أَرْجُوا، وَفِّرُوا کے صیغہ اَمر کے ساتھ حکم ہوا ہے۔امر وجوب کے لیے ہوتا ہے اور فرضیت پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ جمہورعلماء کا موقف ہے۔ چنانچہ ابن ہمام حنفی[2] میں فرماتے ہیں:
((صیغۃ الأمر خاصۃ بالو جوب عندالجمہور۔)) [3]
’’جمہور کے نزدیک امر کا صیغہ وجوب کے لیے خاص ہے۔‘‘
یہی چیز علامہ ابن حاجب جمال الدین نے مختصر الاصول میں فرمائی ہے اور یہی موقف علمائے اصول کا ہے۔
لہٰذا جو شخص اس امر کو بجا لاتا ہے اسے ثواب ملتا ہے اور جو اس کو ترک کرتا ہے وہ عقاب کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔داڑھی رکھنے والا اپنے اس عمل سے أَطِیعُوا اللّٰہَ وَ أَطِیْعُوا الرَّسُولَ
[1] البخاری589 3، ومسلم 259۔
[2] دیکھئے: التحریر، ص: 129
[3] المنار مع نور الأنوار2 30، التوضیح مع التلویح15 3، اصول السرخسی185، اصول البزدوی 21، والحسامی40 التحبیر لأمیر بادشاہ1/241۔