کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 89
جامعہ تعلیم القرآن و الحدیث للبنات۔ گوجرانوالہ
زمانہ قبل از مسیح میں ارسطو نے کہا تھا : ’’ماں کی گود سب سے پہلا علمی گہوارہ ہے۔ ‘‘
ارسطو کا یہ مقولہ ایک بہت بڑی صداقت ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں نے تعلیم نسواں کی طرف خصوصی توجہ رکھی ہے۔ ایک دفعہ جرمنی کے شہرہ آفاق قومی لیڈر نے کہا تھا۔
“Give me good mothers,I Shall give you a good nation”
ترجمہ : ’’ تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمھیں اچھی قوم دوں گا۔ ‘‘
تعلیم نسواں کے جن نظریات کو آج ہم یورپ وغیرہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں اس کی اہمیت و افادیت کی طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 1500 برس قبل ارشاد فرمایا تھا : ’’طلب العلم فريضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ‘‘
اسی فرمان نبوی کے پیش نظر شیخ الحدیث سلفی مرحوم و مغفور تعلیم نسواں کی طرف متوجہ رہے۔ چنانچہ جامع مسجدچوک نیائیں سے ملحقہ مدرسہ خواتین تو عرصہ دراز سے خدمات سرانجام دے رہا تھا۔ مگر ضرورت تھی کہ Sceintific Basis پر ایک عالیشان مدرسہ بھی قائم کیا جائے۔ چنانچہ حضرت الامیر نے جماعت اہل حدیث کی نامور مبلغہ اور عالمہ محترمہ بیگم ثریا شاہد صاحبہ اور چند دیگر صاحب علم خواتین میں تحریک پیدا کی کہ ایک انجمن بنات المسلمین بنائی جائے اور اس انجمن کے تحت ایک عظیم الشان مدرسہ قائم کیا جائے۔ چنانچہ حضرت سلفی رحمہ اللہ کی تحریک پر محترمہ بیگم ثریا شاہد صاحبہ و بیگم چوہدری وہاب دین مرحوم نے رات دن محنت کر کے ستمبر 1965ء سے 1967ء تک 13 مرلہ اراضی خرید کر اس کی رجسٹری مدرسہ اور جمعیت اہل حدیث کے نام کروا دی گئی۔ [1]
سنگ بنیاد
23 مئی1967ء بروز جمعۃ المبارک حضرت الامیر مولانا محمد اسماعیل مرحوم نے اپنے دست مبارک سے ایک جم غفیر کی موجودگی میں الجامعہ تعلیم القرآن و الحدیث للبنات کی بنیاد رکھی اور انتہائی رقت آمیز طریقہ سے جامعہ کی کامیابی کے متعلق دعائے خیر فرمائی۔ دعا میں اس قدر
[1] ۔ مجلّہ والضحی رمضان المبارک 1458ھ ص 14