کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 86
3۔ کتاب سنت کی وہی تشریح و تعبیر معتبر ہے اور قابل قبول ہے جو سلف سے منقول و ماثور ہے۔ 4۔ قرآن و حدیث کے خلاف کسی بھی شخص کا کوئی قول قابلِ قبول اور لائق احتجاج نہیں۔ 5۔ اجتہاد کا دروازہ ہر وقت راسخ فی العلم اصحابِ فکر و نظر پر کھلا ہے۔ حکومت سعودیہ کا تعاون جامعہ کے یوم تاسیس سے مرحوم موسسینِ جامعہ مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ ۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ اور دیگر شیوخ کا خیال تھا کہ جامعہ کا تعارف بیرون ملک خصوصاً سعودی عرب میں بھی ہونا چاہیے۔ مدینہ یونیورسٹی کے قیام کے وقت یہ تمام اہل حدیث شیوخ حکومت سعودی عرب کی دعوت پر وہاں تشریف لے گئے تھے۔ انہوں نے جامعہ کے اغراض و مقاصد کا ذکر سعودی عرب کے علماء خصوصاً سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ سے کیا۔ مگر اس وقت کثرتِ مشاغل کی وجہ سے عرب شیوخ اس طرف توجہ نہ کر سکے۔ مگر جب 1970ء میں صدر جامعہ جناب میاں فضل حق رحمہ اللہ صاحب حج کے لیے تشریف لے گئے تو انہوں نے مولانا عبدالرحمٰن مدنی سے جو ان دنوں مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے) مل کر شیخ عبدالعزیز بن باز کے ساتھ ملاقات کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ میاں صاحب اپنے رفقاء سمیت شیخ بن باز رحمہ اللہ سے ملے۔ انہوں نے بڑی محبت کے ساتھ وفدکا استقبال کیا اور جامعہ سلفیہ کی امداد کا وعدہ کیا۔ 1971ء میں سعودی حکومت نے اپنے سفارت خانہ کی وساطت سے جمعیت اہل حدیث کی تمام تفصیلات دریافت کیں۔ جس پر جمعیت کا دستور، تحریک اہل حدیث کا مختصر تعارف اور پاکستان میں جمعیت کی سرگرمیوں پر مشتمل تفصیلات سعودی حکومت کے ثقافتی مرکز کی معرفت حکومت سعودیہ کو ارسال کر دی گئیں۔ شیخ ابن باز نے ذاتی دلچسپی لے کر شاہ فیصل شہید کو سفارشی خطوط ارسال کیے اور شیخ ابن باز نے جامعہ سلفیہ کے نصاب میں بعض تبدیلیوں کے لیے کہا تاکہ جامعہ سلفیہ کا نصابِ تعلیم،جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے نصاب کے قریب تر ہو جائے اور دونوں کے نصابِ تعلیم کا معادلہ ہو سکے۔ چنانچہ شیخ بن باز کی سفارش پر حسب ذیل کتب کا اضافہ کیا گیا۔ (1)فتح القدیر شوکانی(2)شرح عقیدہ طحاویہ(3)شرح عقیدہ واسطیہ(4)فتح المجید شرح کتاب التوحید(5)علم الاسناد(6)شرح ابن عقیل(7)الادیان و الفرق۔ نصابِ تعلیم میں اس تبدیلی کے بعد حکومت سعودیہ کی طرف سے 5 اساتذہ کرام کا تقرر