کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 79
انسانوں کے لاشے خاک و خون میں تڑپ رہے تھے کہ انہیں اٹھانے والا کوئی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ انگریز کے اس خونی ڈرامے کے دو برس بعد جب پوری قوم ابھی خوف و ہراس اور سراسیمگی کے عالم میں مایوس و بیکراں تھی اور گورا فوج گلی کوچوں میں گشت کر رہی تھی۔ لوگوں کے گھروں میں چھاپے مارے جا رہے تھے۔ تلاشیاں لی جاتی تھیں۔ پکڑ دھکڑ کا بازار گرم تھا۔ پنجاب کے خطوں خصوصاً امرتسر، لاہور، قصور، گوجرانوالہ میں شرفا کا چلنا پھرنا دو بھر ہو چکا تھا۔ اسی حسرت و یاس کے عالم میں مسلمانوں کے حق پر ثابت رہتے ہوئےصبر و استقلال سے باطل کا مقابلہ کرنے اور’’وتواصو بالحق وتواصو بالصبر‘‘ کا عملی نمونہ پیش کرنے اور مستعد علماء کی بے لاگ کھیپ تیار کرنے کے لیے 1921ء میں’’جامعہ محمدیہ‘‘ کا اجراء کیا گیا۔ مولانا سلفی رحمہ اللہ مرحوم و مغفور یہ سمجھتے تھے کہ انگریزی حکمرانوں کے عزائم کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مسلمانوں سے جب تک کتاب و سنت کی تعلیم اور اسلامی تہذیب و تمدن نہ چھین لیا جائے اس وقت تک انگریزی عملداری کا استحکام برصغیر پاک و ہند میں ناممکن ہے۔ اس مقصدکے لیے علمائے کرام کو پھانسی دی گئی۔ کالے پانی بھجوایا گیا جس میں اکثریت علمائے اہل حدیث کی تھی اس سے جماعت اہل حدیث کو غیر معمولی نقصان اٹھانا پڑا۔ نیز اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اور مسلمانوں کی متحدہ قوت کو منتشر کرنے کے لیے ایسے لوگوں کی بھرپور مدد کی گئی جو غیر اسلامی رسومات کو مذہبی حیثیت دے کرانہیں اسلام کا بنیادی عقیدہ قرار دیں۔ اس طرز عمل سے بیشمار بدعات و خرافات کے دروازے کھل گئے۔ آیات باری تعالیٰ کے تراجم بدل گئے۔ ضعیف و متروک اور خود ساختہ روایات کو عقیدہ کا اہم رکن قرار دیا گیا۔ ایسے تاریک دور میں جامعہ کا قیام ایک اہم دینی اقدام تھا جس سے نصف صدی تک اسلام کی مقدس تعلیم، کتاب و سنت کا صحیح مفہوم بیان کرنے اور زیور تعلیم سے ناخواندہ حضرات کو آراستہ کرنے کی مسلمہ قوت رکھنے والے سینکڑوں کی تعداد میں جید عالم دین،مناظر، خطیب، مفتی، فقیہہ، مفکر اور شیخ الحدیث پیدا کیے۔ جامعہ محمدیہ کے فارغ التحصیل علماء کی تبلیغی مساعی سے لاکھوں فرزندانِ توحید استفادہ کر رہے ہیں۔ جامعہ محمدیہ کی امتیازی خصوصیات اس درس گاہ کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ 13/جولائی1930ء کو تنظیم اہل حدیث کے نام سے کمیرپور میں ایک تنظیم تشکیل دی گئی تھی۔ اس کے متفقہ امیر حضرت مولانا محمد شریف گھڑیالوی