کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 72
فرماتے۔ بخاری اور دیگر ائمہ حدیث کو براہ راست حدیث کے سقم و صحت کے بارے میں براہ راست ہدایات فرماتے نہ علم جرحِ و تعدیل کی ضرورت ہوتی اور نہ اصول حدیث اور اصول فقہ کے ان دفاترکی ضرورت پیش آتی۔ اگر آپ دنیا میں تشریف لایا کرتے تو ضرور حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ ۔ شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ ۔ حضرت جنیدبغدادی رحمہ اللہ ۔ حضرت شبلی رحمہ اللہ یا سلطان العارفین بایزیدبسطامی رحمہ اللہ و دیگر ائمہ تصوف سے ملتے اور یہ حضرات اپنی تصانیف و ملفوظات میں ان ملاقاتوں کا ضرور تذکرہ فرماتے۔ افسوس ان مقدس بزرگوں سے ایسی کوئی شیخی منقول نہیں۔
وائے بر دعویٰ اسلام و دیں
بود بے شبلی و نہ جنید ایں چنیں
(2)دوسرے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا ہے کہ اگر کسی نام کے اہل حدیث کو یہ جنوں سمایا ہےاسے بھی دماغی ہسپتال بھجوانے کی کوشش کیجئے تاکہ نہ خود برباد ہو نہ دوسروں کو برباد کرنے کی کوشش کرے۔ اس قسم کے قصے بعض خوابوں کی صورت میں بعض حضرات سے منقول ہیں لیکن خواب شرعی حجت نہیں۔ البتہ یہ ممکن ضرور ہے کہ کوئی بزرگ خواب میں نظر آئیں اور کوئی نصیحت یا ہدایت فرمائیں، مگر یہ خواب ہی ہوگا کوئی شرعی دلیل نہ ہوگی۔
(3)تیسرے جواب میں فرماتے ہیں کہ’’قرآن عزیز نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام آذر ذکر کیا ہے ’’ابٌ‘‘ کو چچا کہنے کے لیے کوئی قرینہ چاہیے۔ ورنہ ابٌ کا حقیقی معنی باپ ہی ہوتا ہے۔ عہد قدیم تورات، تواریخ نمبر 1 باب نمبر 1 میں حضرت ابراہیم کے باپ کا نام تارخ لکھا ہے اور لوقاباب 3 میں ان کا نام ترہ ہے۔ اگر عہد قدیم اور عہد جدید کے بیانات کو اہمیت دی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ نام آذر تھا اور تارخ و ترہ ان کے لقب ہوں گے۔ بہر کیف قرآن عزیز کے بیان کو ترجیح حاصل ہے اور صحیح یہی ہے کہ ان کا نام آذر تھا۔ اس معاملہ میں زیادہ مغالطہ آمیزی شیعہ حضرات کی طرف سے کی گئی ہے کہ وہ آذر کے کفر سے گھبراتے ہیں جس کی قرآن عزیز نے صراحت فرمائی ہے۔ اہل سنت کے نزدیک باپ بیٹے کے اختلاف میں کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ۔ [1]
مولانا کے فتاویٰ میں زیادہ قابل ذکر چیز ان کی علمیت ہے۔ ایک شخص خود بخود قائل ہوتا چلا جاتا ہے۔ مولانا کے اکثر فتووں میں اختصار پایا جاتا ہے۔ لیکن بعض طلاق و نکاح کے مسائل کے
[1] ۔ آل عمران : 28