کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 69
اگر دورانِ درس کوئی صاحبِ علم کوئی سوال دریافت کرتا تو علم کا دریا طغیانی پر آجاتا۔ پھر آپ بیضاوی، تفسیر خازن، تفسیر ابن عباس، مدارک، تفسیر طبری، تفسیر کشاف اور رازی کی تفسیر کبیر سے حوالے دیتے۔ مولانا نے ان تفاسیر کا بالاستعیاب مطالعہ کیا ہوا تھا اور تفسیر بالماثور کے ساتھ آپ نے فلسفہ اور علمِ کلام پر بھی عبور حاصل کیا ہوا تھا اور عربی علم و ادب پر بھی آپ گہری بصیرت رکھتے تھے۔ اس وجہ سے مشکل سے مشکل سوال کو اس طرح حل فرماتے جیسےاس میں کسی قسم کی کوئی گنجلک نہیں۔ عموماً درس قرآن نماز فجر کے بعد ہوتا مگر ایسا بھی ہوا کہ کچھ عرصہ مولانا نے درس قرآن کا پروگرام مغرب کے بعد رکھا۔ درس قرآن کے شائق تجار کاروبار سے فارغ ہو کر بروقت مسجد میں پہنچ جاتے اور اپنی روح کی بالیدگی کا سامان حاصل کرتے۔ زندگی میں تقریباً نصف صدی تک یہ سلسلہ درس قرآن جاری رہا۔ کئی قرآن ختم ہوئے۔ مولانا کے درس میں باقاعدہ حاضری دینے والے خود اس قدردین سے آگاہ ہو جاتے تھے کہ وہ بلاتکلف تبلیغ دین کا فریضہ سرانجام دے سکتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد کئی مساجد میں درس قرآن باقاعدگی کے ساتھ ہوتا تھا، مثلاً صوفی عبدالحمیدصاحب سواتی، حضرت مولانا قاضی شمس الدین رحمہ اللہ ۔ حضرت مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ اور حضرت مولانا مفتی محمد خلیل رحمہ اللہ سارے حضرات مختلف مساجد میں درس قرآن دیتے تھے۔ مگر جو نرالہ رنگ حضرت سلفی رحمہ اللہ کے درس میں تھا وہ کہیں اور نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے اصحاب اپنے مکتب فکر کے عالم کا درس چھوڑکر حضرت سلفی رحمہ اللہ کا درس سنتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک عالم ہم نوا ہوگیا۔ [1] حضرت سلفی رحمہ اللہ کےفتاویٰ یہ بات تو حقیقت ہے کہ ہر شخص علوم دین کا فاضل نہیں ہوتا۔ زندگی متحرک ہے، روزمرہ کے واقعات میں کئی مسائل مشاہدے میں آتے ہیں ان کے بارے میں عوام الناس کو شرعی نقطہ نظر معلوم نہیں ہوتا۔ کاروباری زندگی میں، طلاق و نکاح کے معاملات میں، اختلافی مسائل کے حل کے لیے کئی لوگ علماء کی طرف رجوع کرتے ہیں اور فتویٰ طلب کرتے ہیں۔ فتویٰ کا مقصد عموماً احقاق حق ہوتا ہے۔ دینی مزاج رکھنے والے افراد کے لیے فتویٰ کی حیثیت ایسی ہےجس طرح ایک قانون کے ماہر کے لیے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی رولنگ۔
[1] تاریخ اہل حدیث گوجرانوالہ مرتب : بابا عبداللہ اہل حدیث