کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 68
مولانا سلفی رحمہ اللہ کا درس قرآن
حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کی تحریک پر جب حضرت سلفی رحمہ اللہ گوجرانوالہ تشریف لے آئےتو آپ نے بیک وقت کئی مشاغل شروع کر دیئے۔ درس و تدریس کا باقاعدہ سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ لیکن اس سے استفادہ صرف باقاعدہ طلبہ کر سکتے تھے چونکہ عوام الناس کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ علوم اسلامیہ میں دسترس حاصل کرنے کے لیے مروجہ نصاب کی تمام کتب کا مطالعہ کریں۔ خصوصاً صرف و نحوکی دقیق بحثیں عوام کے ذوق کی چیزنہیں۔
لیکن جس مقصد کی خاطر حضرت سلفی رحمہ اللہ نے یہ منصب خطابت سنبھالا تھا اس کا تقاضہ یہ تھا کہ عام لوگوں کی دینی تربیت کی جائے۔ عقائد کی اصلاح کی جائے اور دینی روح بیدار کی جائے۔ چنانچہ حضرت نے اوائل میں ہی درس قرآن کا سلسلہ شروع کر دیا۔ چونکہ خود قرآن کا ارشاد ہے۔ ’’انّ ھذاالقرآن یھدی للتی ھی اقوم‘‘ بے شک یہ قرآن ایسی راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ ‘‘ یہی واحد ذریعہ ہے جس کی برکات سے دلوں کا زنگ صاف کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ جب حضرت نے درس قرآن کا سلسلہ شروع فرمایا تو ابتدا میں چندلوگ ہی مستفید ہوتے تھے، مگر رفتہ رفتہ آپ کے انداز بیان کی دھوم دور دراز تک پھیل گئی اور قرب و جوارسے بھی لوگ نماز فجر جامع مسجدچوک بنائیں میں ادا کرنے لگے۔ فجر کی جماعت کی امامت مولانا خود فرماتے تھے اور اسی لگن اورلحن سے قرآن کی تلاوت کرتے کہ نمازی اشکبار ہو جاتے۔ نماز کے بعد آپ درسِ قرآن شروع کر دیتے۔
چند آیات کی تلاوت فرمانے کے بعد ترجمہ کرتے۔ سیاق و سباق کی تشریح فرماتے۔ آیات کی شان نزول بیان فرماتے۔ آپ کے درس قرآن کا اندازوہی تھا جو امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے تفسیر ابن کثیر میں اختیار فرمایا ہے۔ یعنی آپ آیات کی تشریح میں پہلے آیات پیش کرتے۔ پھر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے استدلال کرتے۔ اس کے بعد اقوال صحابہ و تابعین پیش کرتے۔ اگر ائمہ اربعہ میں کہیں اختلاف ہوتا تو وجہ اختلاف بیان فرماتے۔ مگر مجال ہے کہ کسی کے متعلق کوئی ناروا فقرہ زبان سے نکل جائے۔ احتیاط سے کام لیتے۔ دلائل سے صحیح موقف کی نشاندہی فرماتے۔