کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 56
مادوں نے اور کچھ عصر ھاضر کے متاثرین نادانوں نے جس طرح اخبار آحاد کے نام سے حجیت حدیث کو مجروح کرنے کی ناروا کوششیں شروع کر دیں۔ الحمدللہ حضرت مولانا نے’’حدیث کی تشریعی حیثیت‘‘جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث، عجمی سازش کا فسانہ، امام بخاری کا مسلک وغیرہ جیسے مختصر مگر جامع مقالات عصری اسلوب کی پورے رعایت کے ساتھ تیار کیے اور ملت کے نوجوان طبقہ کو اس مرعوبیت سے بچانے کے لیے اہم حصہ لیا۔ مولانا کا کردار ان کا عمل، ان کا اخلاص و ایثار، ان کا پختہ شعور، ان کی امانت، ان کا ورع و تقویٰ، ان کا تدبرو بصیرت، ان کی دور اندیشی اور بالغ نظری اللہ پر ان کا توکل اور ان سب پر مستزاد علمی میدان میں اپنے معاصرین پر خواہ وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔ ان کا تفوق ان کے لیے سب سے زیادہ معاون ثابت ہوا۔ مولانا سلفی رحمہ اللہ کی خدمات کی جامعیت اور ہمہ جہتی کا یہ عالم تھا کہ وہ ایک طرف کتاب و سنت، مسلکِ سلف، اور تحریکِ اہل حدیث کا دفاع کر رہے تھے۔ دوسری جانب قادیانیت سے نبرد آزما ہو رہے تھے۔ تیسری جانب حیاتِ انبیاء جیسے مسائل کا تجزیہ کر رہے تھے۔ چوتھی جانب مولانا غلام رسول مہر مرحوم جیسے نادرہ روزگار مؤرخ و صحافی کے لیے برصغیر پاک و ہندکی تاریخ کے سلسلے میں مواد فراہم کر رہے تھے۔ یہ انہی کی جدوجہداور خلوص تھا کہ وہ مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کو سیاسی میدان سے کھینچ کر دعوت و تحریک کے میدان میں لائے اور اپنے شاگردوں کے اندر قرآن و سنت کا صحیح ذوق پیدا کیا۔ مولانا محمد حنیف ندوی کو فکر اسلامی پر، تحریر پر آمادہ کرنا۔ مولانا محمد عطاءاللہ حنیف جیسے خاموش انسان کو تحریک و تنظیم کی راہ پر لگانا۔ مولانا غلام رسول مہر، مولانا محی الدین قصوری، مولانا حافظ محمد گوندلوی جیسے علماء سے لے کر حاجی محمد اسحاق حنیف، شیخ محمد اشرف اور میاں عبد المجید جیسے اصحاب خیر کو جماعت اور تحریک کی روح سے سرشار کرنا ایک کرامت ہے، جس کی توفیق اللہ تعالیٰ نے مولانا کو دی اور انہوں نے اپنے کردار کے جادو سے سب کو مسحور کیا۔ [1]
[1] الاعتصام 23دسمبر 1988ء