کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 54
مرکزی ستون جمعیت اہل حدیث پاکستان کے زعیم و سربراہ حضرت علامہ مولانا محمد اسماعیل صاحب کا سانحہ ارتحال جماعت اہل حدیث کے لیے بالخصوص اور پوری ملت اسلامیہ کے لیے بالعموم وقت کا ایک عظیم ترین حادثہ ہے۔ مولانا موصوف جمعیت اہل حدیث مغربی پاکستان کے امیر، شعلہ بیان خطیب،بے مثل انشا پرداز، کتاب و سنت اور مسلکِ سلف کے بہترین ترجمان اور داعی تھے۔ امور دینی پر آپ کے افکارو خیالات بیش قیمت دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں،علامہ موصوف بہت سے اوصاف و فضائل کے حامل تھے۔ آپ کی دائمی مفارقت سے جو جگہ خالی ہوئی ہے اس کا پر ہونا مشکل ہے۔ آج کل سخت قحط الرجال ہے آج کا یہ جلسہ موصوف کے ارتحال پر اپنے انتہائی غم و افسوس کا اظہار کرتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ اللہ رب العزت مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے پس ماندگان اور جملہ وابستگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔ [1] اخبار اہل حدیث دہلی کی 7مارچ 1968ء کی اشاعت میں جمعیت اہل حدیث مالیر کوٹلہ ریاست کی طرف سے حسب ذیل قرارداد تعزیت پیش کی گئی ہے۔ ’’جماعت کو دہلی سے حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی وفات حسرت آیات کی اطلاع ملی ہے۔ اس پر ساری ریاست میں غم و افسوس کی گھٹا چھا گئی ہے۔ آپ صاحبِ عزم و استقلال اور علمائے حق میں سے تھے۔ آپ زندگی بھر توحیدو سنت کی اشاعت اور شرک وبدعت کی تردید میں کوشاں رہے۔ آپ کی دینی خدمات آپ کی یاد تازہ کرتی رہیں گی۔ جماعت اہل حدیث ابھی حضرت مولانا محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ ۔ حضرت العلام حافظ محمد عبداللہ صاحب روپڑی رحمہ اللہ اور مولانا نذیر احمد صاحب دہلوی دیسے بزرگوں کی جدائی سے ہی جان بر نہ ہوئی تھی کہ نمونہ سلف حضرت مولانا سلفی رحمہ اللہ بھی داغ مفارقت دے گئے۔ تھی باغ کی یاد گار اک بلبلِ زار سو اس کی بھی کل سے نہیں آتی آواز اس موقع پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ذہن میں آرہی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کے سینے سے نکال لیا جائے۔ بلکہ علماء ایک ایک کر کے دنیا سے رخصت ہوجائیں گے اور لوگ جاہلوں کے بیان کردہ مسائل و فتویٰ کی بنا پرگمراہ ہوجائیں گے۔ اسی لحاظ سے عَالِم کی موت کو عَالَم کی موت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ [2]
[1] خبار اہل حدیث دہلی 7مارچ 1968ء  [2] ایضاً