کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 53
ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سےہوتاہےچمن میں دیدہ ورپیدا
حضرت مولانا داؤد راز نے اس اخبار کے اپریل کے شمارے میں حضرت سلفی رحمہ اللہ کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار فرماتے ہوئے لکھا ’’حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور ابو الوفا سید العلماء مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ کی تجویز پر آپ نے گوجرانوالہ میں قیام فرمایا اور زندگی بھر یہاں علم و عمل اور جہد و جہاد میں مصروف رہے۔ مسلمانان ہند کی کوئی ایسی ملی و مذہبی تحریک نہیں جس میں آپ نے عملی حصہ نہ لیا ہو۔ کتنی دفعہ سنتِ یوسفی کے تحت قید و بند میں بھی رہے۔ آپ جامع الصفات شخصیت تھے۔ مولانا حافط عبداللہ غازی پوری کا تقویٰ، مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری کا شغفِ حدیث، حافظ عبد المنان رحمہ اللہ کا ذوق تدریس۔ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کی انگریز دشمنی، مولانا سیالکوٹی کا جوہر خطابت، مولانا امرتسری مرحوم کا ذوق تالیف، مولانا ابوالکلام آزاد کا جذبہ حریت، مولانا محمد حسین بٹالوی کی وسعت علم۔ الغرض اکابر کی یہ جملہ خوبیاں آپ کی ذات میں جمع ہوگئی تھیں۔ اس قدر اونچی شخصیت ہونے کے باوجود غربا سے آپ کوبے حد محبت تھی۔ نمود و نمائش سے سخت پرہیز تھا۔
آپ نے پچاس سال تک درس قرآن وحدیث کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے۔ بہت سی علمی و قلمی یادگاریں بھی آپ نے چھوڑی ہیں جو رہتی دنیا تک قدر دانوں کے لیے باعث رشد و ہدایت ہوں گی۔ [1]
علامہ زماں متکلمِ دوراں حضرت مولانا عبدالوہاب صاحب آروی ادام اللّٰه فیوضھم (صدر آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس)کی زیر صدارت حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی رحلت پر ایک تعزیتی جلسہ منعقدہوا جس میں تمام اکابرینِ ہند مثلاً مولانا عبدالرحمٰن صاحب کاشمیری،سابق ممبرپارلیمنٹ،حافظ محمد یحيٰ صاحب ورکنگ صدر آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالجلیل رحمانی، حضرت مولانا عبدالسلام صاحب بستوی، خواجہ محمد سلیم صاحب آف کوٹھی حاجی علی جان، مولانا عبدالصمدصاحب رحمانی اور مولانا عبداللطیف صاحب سلفی نے شرکت فرمائی اور حسب ذیل قرارداد تعزیت پاس کی۔
متحدہ ہندوستان کے مشہور فاضل علومِ عربیہ اور اسلامیہ،میدان دین و سیاست کے نامور مجاہد، آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کی عاملہ کے قدیم رکن اور جماعت اہل حدیث پاکستان کے
[1] ۔ ماہانہ نور الایمان اپریل 1968ء