کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 51
علمائے ہند کے تاثرات مفکراسلام، شیخ الحدیث اور ہندوستان کے نامور صاحب قلم حضرت مولانا عبدالجلیل رحمانی صاحب نے حضرت کی وفات حسرت آیات پر درج ذیل تاثرات کا اظہار فرمایا۔ ’’ہم اور آپ روز و شب بڑے بڑے آدمیوں کے انتقال کی خبرکانوں سے سنتے ہیں۔ آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اخباروں میں پڑھتے ہیں۔ موت کا حادثہ نہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے نہ غیرمتوقع، مگر موت کی بعض خبریں اپنے ہولناک نتائج اوردور رس اثرات کے اعتبار سے اتنی لرزہ خیزہوتی ہیں کہ جن کے سننے سے کروڑوں انسانوں کے دلوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ موت کے ایسے حادثات برس ہا برس اورگاہ گاہ صدیوں بعد پیش آتے ہیں۔ حضرت علامہ شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل آف گوجرانوالہ کے انتقال کی لرزہ خیز خبر کا ٹیلی گرام21/تاریخ کواخبار اہل حدیث دہلی میں موصول ہوا۔ انتقال کی یہ خبر آناً فاناً سارے ہندوستان میں پھیل گئی۔ کم وبیش پچاس سال تک کتاب وسنت کی مسنددرس،وعظ و تذکیراور خطابت کی مجلسوں کی زینت علامہ مرحوم سے رہی۔ افسوس کہ یہ چشمہ فیض21/فروری1968ء کو بند ہوگیا۔ آپ امیر جماعت اہل حدیث پاکستان، متحدہ ہندوستان کے نامور فاضل، صاحبِ طرز خطیب و انشا پرداز، بیباک مجاہد، جنگ آزادی کے سپہ سالار تھے۔ علومِ کتاب و سنت پر آپ کو جو عبور حاصل تھا۔ اس کا صحیح اندازہ ان اصحاب علم کو ہے جنہوں نے علامہ مرحوم کی تحریرات و مصفات کا گہرامطالعہ کیا ہے۔ باطل افکار و خیالات کی دنیامیں آپ کی بھرپور اور محققانہ تنقیدسےہل چل مچی رہتی تھی۔ کتاب وسنت کے احکام ومسائل اور تعلیمات کی تعبیر و ترجمانی جس دلپذیر انداز پرزبان و قلم سے علامہ مرحوم فرماتے رہے۔ وہ محض آپ کا حصہ ہے۔ تقسیم ملک کے بعد جب جماعت کا شیرازہ بکھر گیا تو یہ حضرت مولانا کی شخصیت تھی جس نے جماعت کی شیرازہ بندی کی۔ جمعیت اہل حدیث پاکستان کا قیام اور دارالعلوم جامعہ سلفیہ جیسی عظیم الشان درس گاہ مرحوم ہی کی مجاہدانہ کاوش کا ثمرہ ہے۔ آپ کی یہ باقیات صالحات،