کتاب: مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ - صفحہ 44
جاتے ہیں۔ ’’کوئی بھی اس دنیا میں بقاکو ساتھ لے کر نہیں آیا۔ جو بھی اس عالم رنگ و بو میں جنم لیتا ہے۔ وہ ایک دن اس سے رختِ سفر باندھ جاتا ہے۔ یہاں کسی کو ثبات نہیں۔ لیکن بعض ایسے لوگ بھی اس ناپائیدار دنیا میں جنم لیتے ہیں کہ گم نامیوں میں پیدا ہو کر نیک نامیوں میں پروان چڑھتے ہیں اور شہرت وعظمت کی رفعتوں کو چھوتےہیں۔ جب اس دنیاسے رخصت ہوتے ہیں لاکھوں قلوب و اذہان ان کی یاد میں سوگوار ہو جاتے ہیں اور پھر تقلبات و حوادثات زمانہ ان کی یاد کو لوگوں کے دلوں سے محو نہیں کر سکتے۔ بلکہ گردش لیل و نہارسے ان کی یاد میں شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر نسل در نسل ان کی محبت کی وراثت منتقل ہوتی رہتی ہےاور وہ عقیدت اور مودتوں کا محور بن جاتے ہیں۔ انبیاء اور ان کے اصحاب تو بڑے مقدس لوگ ہوتے ہیں اور ان سے محبت اور وابستگی جزو ایمان بن جاتی ہے۔ ان کے خدام میں بھی ایسے ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ قرن ہا قرن گزرنے کے باوجود یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کو ہم سے گزرے ہوئے چند لمحات سے زیادہ عرصہ گزرا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ۔ امام مالک رحمہ اللہ ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ۔ امام بخاری رحمہ اللہ ۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ ۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ ۔ ایسےلوگ صدیوں سے جنت الفردوس میں ڈیرے لگائے ہوئے ہیں لیکن کائنات میں ابھی تک اُن کی خوشبو رچی بسی ہے اور اس دنیاکے قیام تک رچی بسی رہےگی۔ کچھ اور لوگ آئے اور انہوں نے بھی اس جادہ استقلال و عزیمت کو اپنایا جوان ائمہ کی گزرگاہ رہ چکا تھااور وہ بھی ستاروں کے اسی جھرمٹ میں شریک ہوگئےجوابد تک چمکتے رہیں گے۔ بلاشبہ حضرت سلفی رحمہ اللہ بھی اسی قافلہ کے حدی خواں ہیں۔ حضرت سلفی رحمہ اللہ انہی دارفتگان سلف میں سے تھےکہ نیک نامی جن کے ساتھ پروان چڑھی اور نصف صدی کا طویل زمانہ ایک ایسے شہر میں بسر کیا جس میں مخالفین بھی رہتے ہوں اورمعاندین بھی۔ لیکن یہاں کوئی ایک شخص بھی ان کی زبان،ہاتھ اور نگاہ پر الزام نہیں دے سکتا۔ مولاناپوری پامردی اور استقلال کے ساتھ اس منزل کی طرف رواں دواں رہے جس کا پتہ انہیں ان کے ائمہ سلف نے دیا تھا اور اس پاداش میں انہیں بارہا قیدوبند کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں اورزنجیرو سلاسل کے بوجھ اٹھانا پڑے لیکن احمد ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس جانشین کے چہرےپر رنج و ملال کی کوئی شکن نمودارنہ ہوئی۔ وہ دار و گیرکے ہردار کو